صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
میں اجنبی سہی
سید آلِ احمد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں
اس کی خواہش ہے کہ میں اپنا سفر جاری رکھوں
اپنی تنہائی کا یہ جشن مٹانے کے لیے
جی یہ چاہے کہ ترے حسن پہ آوازہ کسوں
تو نے ناحق ہی گرجنے کا تکلف برتا
میں تو بپھرے ہوئے طوفان کا رُخ موڑتا ہوں
عمر بھر جس کے لیے میں نے دعائیں مانگیں
اب اسے، کوئی بتاؤ، میں برا کیسے کہوں
ہے کوئی؟ خستہ لکیروں کی جو قبریں کھودے
کتنے مضمون ہیں مجھ سوختہ تن میں مدفوں
اب تو حالات سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
زندگی! اور کہاں تک ترا رستہ دیکھوں
تیری بستی میں تو پتھر کے سجے ہیں اصنام
آدمی کوئی نظر آئے تو کچھ بات کروں
زُلف ہوتا تو کسی دوشِ سکوں پر کھلتا
میں تو وہ زخمِ وفا ہوں کہ مہک بھی نہ سکوں
کتنی آنکھیں مری خواہش پہ جھپٹ پڑتی ہیں
جب بھی اس شخص سے ملنے کی فراغت ڈھونڈوں
کس کو فرصت ہے مجھے ڈھونڈنے نکلے احمد
اپنی ہی چاپ پہ کب تک میں پلٹ کر دیکھوں
٭٭٭
شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے
یہ الگ بات کہ اک آس لگا رکھی ہے
کتنا ساکت ہے ترے عہد کے اخلاص کا جسم
سوچ کی آنکھ بھی پتھرائی ہوئی لگتی ہے
پھر کوئی تازہ مصائب کا بھنور دیکھیں گے
آب تسکیں پہ کوئی لہر نئی اُبھری ہے
حوصلہ ہار گیا دل تو چھٹی درد کی دُھند
سوچ کے پاؤں ہوئے شل تو سحر دیکھی ہے
آنکھ ہر لمحہ نئے جھوٹ میں سرگرداں ہے
دل ہر اک لحظہ نئی چوٹ کا زندانی ہے
اب کسے دل میں جگہ دیں کہ جسے پیار کیا
کاہشِ رنج ہی معیارِ وفا ٹھہری ہے
سرِ تسلیم ہے خم، شوق سے آوازہ کسو
چپ کی تلوار سے یہ سنگ زنی اچھی ہے
نہ کوئی رنگِ تبسم، نہ حرارت کی رمق
زندگی ہے کہ کوئی سوکھی ہوئی ٹہنی ہے
سخت بوجھل ہوں میں اب دُکھ کے سفر سے احمد
رات دن ضبط کی شہ رگ سے لہو جاری ہے
***
وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں
حرف کا دشت ہوں معنی کا سمندر ہوں میں
کون جانے کہ یہ خوشبو ہے عبارت مجھ سے
کیسے سمجھاؤں کہ پھولوں کا مقدر ہوں میں
مجھ کو آتا نہیں کاندھے پہ جنازہ رکھنا
منجمد شہر! حرارت کا پیمبر ہوں میں
اب بھی آتی ہے ترے قرب کے ایام کی آنچ
اب بھی احساس کا ذخار سمندر ہوں میں
آخر شب ہے، مری ذات سے نظریں نہ چرا
اے غمِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں
شہر میں حفظ مراتب کا بہت قحط ہے اب
آپ چاہیں تو چلے آئیں کہ گھر پر ہوں میں
٭٭٭