صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سیرتِ عائشہ

سیرۃ النعمان علامہ شبلی نعمانیؒ
تذکرۃ النعمان علامہ محمد بن یوسف دمشقیؒ

جمع و ترتیب :عبد الباسط قاسمی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

حالاتِ زندگی


شادی

رسول اللہ ﷺ کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ بنت خویلد تھیں۔ ہجرت سے تین برس پہلے۶۵ برس کی عمر میں انھوں نے وفات پائی ، اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر شریف پچاس برس کی تھی ۔ایسی رفیق و غمگسار بیوی کی وفات کے بعد آنحضرت ﷺ بہت غمگین رہا کرتے تھے بلکہ اس تنہائی کے غم سے زندگی بھی دشوار ہوگئی تھی۔ جاں نثاروں کو اس کی بڑی فکر ہوئی۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون ایک مشہور صحابی ہیں انکی بیوی خولہؓ بنت حکیم آپؐ کے پاس آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ ؐ آپ دوسرا نکاح کرلیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کس سے؟ خولہ نے کہا بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں جس کو آپ پسند فرمائیں اس کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا وہ کون ہیں؟ خولہ نے کہا بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابو بکرؓ کی لڑکی عائشہؓ۔ارشاد ہوا بہتر ہے تم ان کی نسبت گفتگو کرو۔حضرت خولہؓ رسول اللہ ﷺ کی مرضی پاکر پہلے حضرت ابو بکرؓ کے گھر آئیں اور ان سے تذکرہ کیا۔جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں ، عرب اپنے منھ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے ۔اس بناء پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا ، خولہ! عائشہ تو آنحضرت ﷺ کی بھتیجی ہے، آپؐ سے اس کا نکاح کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت خولہؓ نے آکر آنحضرتﷺ سے اس سلسلے میں پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا ابو بکرؓ میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے قبول کر لیا ۔

حضرت عائشہؓ کم سن بچّی تھیں۔ کبھی کبھی بچپن کے تقاضے سے ماں کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر بیٹھتیتھیں تو ماں سزاد یتی تھیں۔آنحضرت ﷺ اس حال میں دیکھتے تو رنج ہوتا۔ اس بناء پرانکی ماں حضرت امّ رومانؓ سے تاکید فرما دی تھی کہ ذرا میری خاطر ان کو ستانا نہیں۔ ایک بار آپ حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ کواڑ سے لگ کر رو رہی ہیں ۔ آپؐ نے حضرت ام رومانؓ سے کہا کہ تم نے میری بات کا لحاظ نہیں کیا۔ انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ باپ سے میری بات جاکر لگاآتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ بھی کرے لیکن اس کو ستاؤ نہیں۔

حدیثوں میں آیاہے کہ نکاح سے پہلے آنحضرت ﷺ نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپؐ کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔ پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ آپ ؐ کی بیوی ہیں۔ آپؐ نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہؓ تھیں۔حضرت عائشہ کا جب نکاح ہو ا تو وہ اس وقت چھ۶ برس کی تھیں۔یہ نکاح مئی ۶۲۰ ء میں ہوا۔ اس کم سنی کی شادی کا اصل مقصد نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی تھی ویسے بھی عرب کی گرم آب وہوا میں لڑکیوں کی جسمانی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اور پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز لوگوں کی ذہنی اور دماغی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اسی طرح قد وقامت کی ترقی بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ بہر حال اس کم سنی میں آنحضرت ﷺ کا حضرت عائشہ سے نکاح کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن ہی سے ان میں غیر معمولی عقل وفہم اور سمجھ بوجھ کے آثار نمایاں تھے۔

حضرت عطیہؓ حضرت عائشہؓ کے نکاح کا واقعہ اس سادگی سے بیان کرتی ہیں کہ ’’ حضرت عائشہؓ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ ان کی ماں آئیں اور ان کو لے گئیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے آکر نکاح پڑھا دیا۔‘‘

مسلمان عورت کی شادی صرف اسی قدر اہتمام چاہتی ہے۔ لیکن آج ایک مسلمان لڑکی کی شادی فضول خرچی اور مشرکانہ رسم ورواج کا مجموعہ ہے۔ لیکن کیا خود سرور عالم ﷺ کی یہ مقدس تقریب اس کی عملی تکذیب نہیں ؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہوگیا۔ اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا۔

حضرت عائشہؓ کا مہر رسول اللہﷺ نے پانچ سو درہم مقرر فرمایا تھا جو ۱۳۱ تولہ اور تین ماشہ چاندی کے برابر ہے۔ بہر حال مہر کی ا س مقدار کا مقابلہ آج کل کے زر مہرکی تعداد سے کرو جو ہمارے ملک میں جاری ہے۔ آج مہر کی کمی خاندان کی ذلّت سمجھی جاتی ہے لیکن کیا اسلام کا کوئی خاندان خانوادۂ صدیقؓ سے شریف تر ہے اور کوئی مسلمان لڑکی صدیقۂ کبریٰؓ سے زیادہ بلند پایہ ہے؟

ہجرت

حضرت عائشہؓ نکاح کے بعد تقریباً تین برس تک میکہ ہی میں رہیں۔ دو برس تین مہینے مکہ میں اور سات مہینے ہجرت کے بعد مدینہ میں ۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ روزانہ صبح یا شام کو حضرت ابوبکرؓ کے گھر بلا ناغہ آیا کرتے تھے ۔ایک دن خلاف معمول چہرۂ مبارک چادر سے لپیٹے دوپہر کو تشریف لائے ۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ دونوں صاحبزادیاں بیٹھیں تھیں ۔ آپ نے پکارکر آواز دی کہ ابو بکر ذرا لوگوں کو ہٹا دو میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ یہاںکوئی غیر نہیں ، آپؐ ہی کے گھر والے ہیں۔ آپؐ تشریف لائے اور ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا۔ حضرت عائشہ اور حضرت اسمائؓ نے مل جل کر سامان سفر درست کیا ۔دونوں صاحبوں نے مدینہ کی راہ لی اور بال بچوں کو یہیں دشمنوں کے بیچ چھوڑ گئے جس دن یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا مدینہ پہنچا، نبوّت کا چودہواں سال اور ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ تھی۔

مدینہ میں ذرا اطمینان ہوا تو آپ ؐ نے بیوی بچّوں کے لانے کے لئے حضرت زیدبن حارثہؓ اور اپنے غلام ابو رافعؓ کو مکہ بھیجا۔ حضرت ابو بکرؓ نے بھی اپنا آدمی بھیج دیا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن ابی بکرؓ اپنی ماں اور دونوں بہنوں کو لیکر مکہ سے روانہ ہوئے ۔اتفاق سے جس اونٹ پر حضرت عائشہؓ سوار تھیں وہ بھاگ نکلا اور اس زور سے دوڑا کہ ہر منٹ پر یہ ڈر تھا کہ اب پالان گرا اور اب گرا۔ عورتوں کا جیسا قاعدہ ہے ماں کو اپنی پرواہ تو نہ تھی لیکن بیٹی کے لئے زارو قطار رونے لگیں۔آخر میلوں پر جاکر جب اونٹ پکڑا گیا تو ان کو تشفی ہوئی ۔یہ مختصر قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آنحضرت ﷺ اس وقت مسجد نبویؐ اور اس کے آس پاس مکانات بنوارہے تھے ۔ آنحضرت ﷺ کی دونوں صاحبزادیاں حضرت فاطمہؓ اور حضرت ام کلثومؓ اور آپ کی بیوی حضرت سودہؓ بنت زمعہ اسی نئے گھر میں اتریں ۔


 رخصتی

حضرت عائشہؓ اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو حارث بن خزرج کے محلّہ میں اتریں او ر سات آٹھ مہینے تک یہیں اپنی ماں کے ساتھ رہیں۔ اکثر مہاجرین کو مدینہ کی آب وہوا راس نہیں آئی اور بہت سارے لوگ بیمار پڑگئے۔ حضرت ابوبکرؓ سخت بخار میں مبتلا ہو گئے کم سن بیٹی اس وقت اپنے بزرگ باپ کی تیمار داری میں مصروف تھی ۔ حضرت عائشہؓ نے آکر آنحضرت ﷺ سے کیفیت عرض کی ۔ آپ نے دعا فرمائی، اس کے بعد وہ خود بیمار پڑیں اور اب باپ کی غمخواری کا موقع آیا۔ حضرت ابو بکرؓ بیٹی کے پاس جاتے او ر حسرت سے منھ پر منھ رکھ دیتے ۔یہ اس شدّت کی بیماری تھی کہ حضرت عائشہؓ کے سر کے تمام بال گر گئے۔ صحت ہوئی تو حضرت ابو بکرؓ نے آکر عرض کی یا رسول اللہﷺ اب آپ اپنی بیوی کو اپنے گھر کیوں نہیں بلوالیتے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کے لئے روپئے نہیں ہیں۔ گذارش کی کہ میری دولت قبول ہو۔ چنانچہ رسو ل اللہ ﷺ نے حضر ت ابو بکرؓ سے قرض لے کر حضرت عائشہؓ کے پاس بھجوادئیے۔ اس واقعہ سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئیے جو مہر کو دنیا کا وہ قرض سمجھتے ہیں جس کی ادائیگی ضروری نہیں ۔ مہر عورت کا حق ہے اور اس کو ملنا چاہئے۔

مدینہ گویا حضرت عائشہؓ کی سسرال تھی۔ انصار کی عورتیں دلہن کو لینے حضرت ابوبکرؓ کے گھر آئیں۔ حضرت امّ رومانؓ نے بیٹی کو آواز دی ، وہ اس وقت سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں ۔ آواز سنتے ہی ماں کے پاس ہانپتی کانپتی دوڑی آئیں۔ ماں بیٹی کا ہاتھ پکڑے دروازہ تک لائی، وہاں منھ دھلا کر بال سنوار دیئے ، پھر ان کو اس کمرے میں لے گئیں جہاں انصار کی عورتیں دلہن کے انتظار میں بیٹھیں تھیں ۔ دلہن جب اندر داخل ہوئی تو مہمانوں نے علی الخیر والبرکۃ و علیٰ خیر طائرٍ یعنی’’ تمہار ا آنا بخیر وبابرکت اور فال نیک ہو‘‘ کہہ کر استقبال کیااور دلہن کو سنوارا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود آنحضرتﷺ بھی تشریف لائے۔ اس وقت آپؐ کی ضیافت لئے دودھ کے ایک پیالہ کے سواکچھ نہ تھا۔ حضرت اسمائؓ بنت یزید حضرت عائشہؓ کی ایک سہیلی بیان کرتی ہیں کہ میں اس وقت موجود تھی کہ آنحضرت ﷺ نے پیالہ سے تھوڑا سادودھ پی کر حضرت عائشہؓ کی طرف بڑھایا، وہ شرمانے لگیں ۔ میں نے کہا رسول اللہ ﷺ کا عطیہ واپس نہ کرو۔انھوں نے شرماتے شرماتے لے لیا اور ذرا سا پی کر رکھ دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اپنی سہیلیوں کو دو۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ اس وقت ہم کو خواہش نہیں۔ فرمایا جھوٹ نہ بولو، آدمی کا ایک ایک جھوٹ لکھا جاتا ہے۔یہ رخصتی شوال ۱ھ مطابق ۶۲۳ ء میں ہوئی جب حضرت عائشہؓ نو برس کی تھیں۔ ان بیانات سے اتنا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کا نکاح ، مہر ، رخصتی غرض ہر رسم کس سادگی سے ادا کی گئی تھی، جس میں تکلّف ،دکھاوا اور فضول خرچی کا نام تک نہیں۔ وَ فِی ذَالِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الَمُتَنَافِسُونْ( اور یہ وہ چیز ہے جس میں سبقت کرنے والے کو سبقت کرنا چاہئے)۔( المطففین۔۲۶)

حضرت عائشہؓ کے نکاح کی تقریب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے عرب کی بہت سے بیہودہ اور بری رسموں کی بندشیں ٹوٹیں جیسے منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہ کرنا، شوال میں شادی نہ کرنا وغیرہ۔


***


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول