صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
آئینے کی باتیں
شیخ عبدالغنی العمری
ترجمہ: محمود احمد غزنوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مقدّمہ۔اقتباس
جب سے انسانیت نے ہوش سنبھالا ہے، عقل ِ انساں حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یوں کہنا چاہئیے کہ ہر ڈھونڈنے والے نے دراصل اور حقیقت کو ہی ڈھونڈنا چاہا ، چاہے وہ اس بات سےآگاہ ہو یا نہ ہو۔
اور ان متلاشیوں میں زیادہ تر شہرت فلسفیوں کو ہی حاصل ہوئی حتیٰ کہ اب لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس راہ میں کسی نے اگر کچھ سنگِ میل طے کئے ہیں تو وہ فلسفیوں نے ہی کئے ہیں۔ حالانکہ اصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ فلسفیوں کے اقوال بھی اپنے قارئین کی مکمل تشفی کرنے میں ناکام اور حقیقت کی یافت سے عاجز رہے ہیں۔ اور یوں کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ فلسفیوں نے اتنی مدتیں گذر جانے کے باوجود، عقلِ انسان کو سوائے حیرت اور اس بات کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں دیا کہ 'حقیقت مخلوق کی دسترس سے ماوراء ہے'۔
اور متلاشیانِ حقیقت کی ایک کثیر تعداد نے اپنے تمام غور و فکر کے بعد اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکے۔ اور جس روش پر عوام الناس کاربند ہیں، اسی پر اکتفا کرنے میں عافیت سمجھی۔
جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور اہلِ فکر و نظر کے برعکس، بہت سے ماہرین ِ فن نے ایسی راہوں پر سفر کیا جن مین منطق و فلسفے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ صفائے ادراک اور لطیف محسوسات کی قوتوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک کثیر تعداد نے اس راہ سے ہونے والے ظنّی یعنی غیر یقینی علم پر اکتفا کیا، لیکن اس قابل نہ ہوسکے کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔
چنانچہ ان سب اہلِ فکر و فن کا غالب گمان یہی ہے کہ حقیقت کا کلّی ادراک ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ طالب، قرب کے ذریعے ایک اجمالی علم تک پہنچ جائے۔ اور اس اجمالی علم میں بھی وہ لوگ باہم مختلف الخیال ہیں۔
اور جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، تو اہلِ مذہب کی بھی کثیر تعداد نے اپنے ایمان و اعتقاد کی بناء پر جو علم حاصل کیا، وہ مختلف مذاہب کے اعتبار سے مختلف تھا۔ گویا ایک طاقتور گمان بغیر حقیقی علم کے۔ اور اہلِ فکر و نظر کی طرح ان کا علم بھی جزوی ہے اور ذاتی و اجتماعی عوامل سے متاثر شدہ ہے۔
٭٭٭