صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
میں آئینہ ہی بنی رہی
ثمینہ راجا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
یروشلم
منار مقدّس پہ ---- وعدے کی تصدیق بن کر
فرشتوں کے شانوں پہ ھاتھوں کو پھیلائے
اک روز عیسٰی جو اترا
تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا،
سلیماں کے ہیکل میں
سونے کے بچھڑے کی مورت سجی تھی
فضاؤں میں ''لا '' کی صدا تھی
ہواؤں کی آواز نوحہ سرا تھی
منار مقدّس کے نیچے بسی
کلمہ گوؤں کی سخت وحشت زدہ بستیوں پر
عجب سحر خاموش چھایا تھا
فرعون دوراں کے قانون شب رنگ سے
تابش نور حق پر، اندھیرے کا پہرہ تھا
جبر مسلسل کے ہاتھوں میں جکڑی ہوئی----- وقت کی نبض تھی
گنگ تھی ساری صدیوں کی آواز
اور عہد موجود کی چشم انصاف ----- پتھرا چکی تھی
فلسطیں کی خاک لہو رنگ پر ----- پاؤں رکھا
تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا،
محمّد کی مظلوم امّت کے
معصوم پھولوں کے ہاتھوں میں پتھر تھے
اور سامنے---- امّت سامری کی سپہ تھی
وہ پتھر نشانوں پہ لگتے نہیں تھے
مگر امّت سامری کی کسی توپ کا قہر
اپنے نشانوں سے ہرگز نہیں چوکتا تھا
فضاؤں میں ''لا '' کی صدا تھی
وہ ''لا '' کی صدا جو زمیں پر بپا تھی
وہ ''لا'' کی صدا جو فلک کے
کناروں پہ نوحہ سرا تھی
زمیں سے فلک تک
اسی اک صدائے قضا کا فسوں تھا
وہ شہروں پہ پھیلا ہوا کوئی دشت جنوں تھا
جو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا
غزل
تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی
اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی
اک عمر تلک سفر کیا تھا
منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی
طالب کوئی میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی
وہ ایک ہوائے تازہ میں تھا
میں خواب قدیم میں گڑی تھی
وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭