صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
احکام و مسائل۔ دو حصص
ابو محمد عبدالستارالحماد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول۔ حج، نماز، میت وغیرہ کے مسائل۔ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
حصہ دوم۔ متفرق مسائل۔ ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
ہمارے والد محترم دو دن تک بے ہوش رہے، اس دوران انہیں کسی چیز کا شعور نہیں تھا، کیا فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری ہے، کتاب و سنت کے مطابق وضاحت کریں ۔ (نور خاں ۔ میانوالی)
جو شخص بے ہوش رہا اور اسے
کسی چیز کا شعور نہیں تھا تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے، البتہ جن عبادات
کا تعلق اس کے مال سے ہے وہ ادا کرنا ہوں گی اور بدنی عبادتیں مثلاً نماز
اور روزہ وغیرہ ایسے شخص سے ساقط ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر ایک دن
رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا
نہیں دی تھی۔ (مصنف عبدالرزاق ص479ج2) البتہ بے ہوش آدمی کے مال سے زکوٰۃ
ساقط نہیں ہو گی، اس کی ادائیگی ضروری ہے، ہمارے نزدیک اگر بے ہوشی بغیر
سبب کے ہو تو بدنی عبادات ساقط ہو جاتی ہیں اور اگر اس کا کوئی سبب ہو
مثلاً شراب نوشی یا بھنگ وغیرہ کے استعمال سے بے ہوشی طاری ہو تو اس قسم
کی بے ہوشی میں نمازیں ساقط نہیں ہوں گی۔ بلکہ اس دوران فوت شدہ نمازوں کی
قضا ضروری ہے، سوئے ہوئے انسان کو بے ہوش قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ
سوئے ہوئے انسان میں ادراک ہوتا ہے اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو
سکتا ہے لیکن بے ہوش انسان میں ادراک نہیں ہوتا کہ اگر اسے بیدار کیا جائے
تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا، سوئے ہوئے انسان کے متعلق ارشاد نبوی ہے : ’’
جو شخص نماز بھول جائے یا اس سے سویا رہے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے جب
یاد آئے تو پڑھ لے۔ “ (صحیح بخاری، الواقیت : 597)
اس لئے بے ہوش انسان سے نماز ساقط ہے اور سوئے ہوئے کے ذمے واجب الاداء ہے۔ (واللہ اعلم)
٭٭٭