صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
تیرے نام کی آہٹ
ناہید ورک
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
رہنا تھا مجھ کو تیری نظر کے کمال میں
لیکن میں دن گزار رہی ہوں زوال میں
گھیرا ہے اس طرح مجھے وحشت کے جال نے
سب خواب میرے ڈوب گئے اس ملال میں
مجھ سے نظر چرا کے گزرنے لگی ہوا
آنے لگی جو ہجر کی خوشبو وصال میں
ہوں ساعتِ عذاب میں کیوں میں ابھی تلک؟
اک عمر سے گِھری ہوں اسی اک سوال میں
بے چینیاں تمام ہی میں اُس کی اوڑھ لوں
شامل مجھے کرے تو کبھی اپنے حال میں
میں سُن رہی ہوں پھر سے جدائی کی آہٹیں
جینا پڑے نہ پھر سے اُنہی ماہ و سال میں
قسمت سے راہ میں جو جزیرے ہمیں ملے
تیرے گمان میں تھے، نہ میرے خیال میں
٭٭٭
ہوا میں اڑتے ہوئے بادباں نہیں گزرے
برستے بادلوں کے کارواں نہیں گزرے
وہ بد گمانی کی پرچھائیوں میں رہتا ہے
اُدھر یقیں کے کبھی سائباں نہیں گزرے
میں جن کی آ نکھوں میں سب اپنے خواب رکھ دیتی
مری نگاہ سے وہ مہرباں نہیں گزرے
محبتوں کے سفر میں یہ کون کہتا ہے
کہ دشتِ چشم سے آبِ ر واں نہیں گزرے؟
جہاں بھی چاہے اُڑا کر مجھے وہ لے جائے
صدا کی لہر سے ایسے گماں نہیں گزرے!
مئے حیات کی تلخی سبھی کا حصّہ تھی
جو میرے جیسے تھے تشنہ لباں ، نہیں گزرے
تری صدائے مسلسل کی گونج تھی، پھر بھی
’’ترے خیال پہ کیا کیا گماں نہیں گزرے‘‘
***
بہار آمیز یہ موجِ صبا کچھ اور کہتی ہے
مگر ہر سُو اداسی کی فضا کچھ اور کہتی ہے
خزاں کے موسموں کا زرد پتّہ ہو گیا ہے دل
تو کیوں مجھ سے ہواؤں کی نوا کچھ اور کہتی ہے؟
دھنک کے رنگ بکھرے ہیں مرے چاروں طرف تو کیوں؟
مرے سوکھے گلابوں کی صدا کچھ اور کہتی ہے
مرے سر پر چمکتا آسماں ہے تیری قُربت کا
ستاروں سے مگر خالی ردا کچھ اور کہتی ہے
یقیں سے بے یقینی کا سفر بھی طے کیا میں نے
مگر پھر بھی ترے دل کی رضا کچھ اور کہتی ہے
مرا بے ساختہ پن سب ادھورا رہ گیا ناہید
مری خاموشیوں کی اب صدا کچھ اور کہتی ہے
٭٭٭