صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
آگ کا پرندہ
رفیع رضا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
بس آنکھ لایا ہوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا
سوائے اسکے تعارف کوئی نہیں میرا
میں وُہ پرندہ ہوں جو اپنے پر نہیں لایا
نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھا گھر نہیں لایا
مُجھے اکیلا حدِ وقت سے گُزرنا ہے
میں اپنے ساتھ کوئی ہم سفر نہیں لایا
گُلِ سیاہ کھِلا ہے تو رو پڑا ہوں میں
کہ روشنی کا شجر بھی ثمر نہیں لایا
شُمار کر ابھی چنگاریاں مرے ناقد
کہ مَیں الاؤ اُٹھا کے اِدھر نہیں لایا
مری روانی کی اب خیر ہو مرے مالک
ستارہ ٹُوٹ کے اچھی خبر نہیں لایا!
بھنور نکال کے لایا ہوں میں کنارے پر
مُجھے نکال کے کوئی بھنور نہیں لایا
٭٭٭
حد کوئی توڑ کے وحشت نے نکل جانا ہے
مُجھ کو پھر لے کے محبت نے نکل جانا ہے
میرے جانے سے وُہی رہنی ہے صُورت لیکن
عشق سے خاک کی برکت نے نکل جانا ہے
دل کو دھڑکا کوئی رُکنے نہیں دیتا جیسے
ہاتھ آئی ہوئی دولت نے نکل جانا ہے
ایسے لگتا ہے کہ اب وقت کی سرحد پہ پڑے
اِس مرے ہاتھ سے ساعت نے نکل جانا ہے
دا ئم آباد نہیں رہنا عقوبت خانہ
جان کے ساتھ اذیت نے نکل جانا ہے
سوچتے رہنے میں اندازہ نہیں تھا مُجھ کو
سوچتے رہنے میں مُہلت نے نکل جانا ہے
پردہ اُٹھنے سے قیامت تو نہیں آ جانی
بس مری آنکھ سےحیرت نے نکل جانا ہے
لبِِ گِریہ ابھی کھولا نہیں تا مَیں دیکھوں
آنکھ سے کتنی کثافت نے نکل جانا ہے
روکنے والو بھلا لفظ بھی رُکتے ہیں کبھی
دیکھ لینا میری شُہرت نے نکل جانا ہے
٭٭٭