صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کچھ افسانوی ترجمے
مدیر: اجمل کمال
’آج‘ ۔ مدیر : اجمل کمال، شمارہ ۲۷ سے
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
جھرّیاں: ابراہیم ایم جُبیرا
شہر کے کاروباری علاقے کے قلب میں واقع یہ گھر ایک اونچا یک منزلہ مکان تھا جس کو یہ فوائد حاصل تھے کہ ایک طرف تو جب مطلع صاف ہوتا شمال میں واقع پہاڑ کا تھوڑا بہت نظارہ کیا جا سکتا تھا اور دوسری طرف جنوب سے اُمسائی ہوا کے وہ جھونکے آ جاتے تھے جن میں سمندری جانوروں کی مخصوص بساند بسی ہوتی تھی۔ تنگ و نیم تاریک گلی میں داخل ہوتے ہی ایک طویل زینہ تھا جو اوپر ایک ڈیوڑھی پر ختم ہوتا تھا جہاں سے پوری گنجان بستی نظر آتی تھی۔ گھر کے مالک کی اُپج کے طفیل ڈیوڑھی کی شہ نشین کے اطراف رنگین چلمنیں پڑی تھیں تاکہ موسم گرما میں تیز اور چلچلاتی دھوپ کو روکا جا سکے اور جب طوفانی موسم آئے تو باد و باراں سے بچا جا سکے۔
تقریباً دس برس سے اس مکان میں شیخ عبدالغفار کا چھوٹا سا کنبہ رستا بستا تھا۔ بوڑھا شیخ اپنے سبز عمامے، گلابی عبا، خاکی چپّلوں اور سونے کی موٹھ والی چھڑی سے مزیّن، یہاں عیش و آرام والی قابلِ رشک زندگی گزار رہا تھا۔ اُس کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ ایک محنتی آدمی ہے جس نے اپنی زندگی ایک قلّاش کی طرح شروع کی تھی۔ جب وہ اپنے پرانے وطن کو ترک کر کے یہاں آیا تھا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی، اور اب انجام کار اس نے اتنی دولت جمع کر لی تھی کہ تمام عمر ختم نہ ہو۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ شیخ عبدالغفار جس شے کو چھُو دے وہ فوراً سونا بن جائے۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ بوڑھے شیخ سے زیادہ مصروف کوئی نہ ہو گا۔ دن بھر وہ گھر سے باہر ہی رہتا اور اپنی جواہرات کی دکان اور دیگر چھوٹے موٹے کاروبار کی دیکھ بھال کرتا اور شام کو گھر لوٹ کر شراب کی چسکی لگاتا اور اپنی رقم گنتا۔ اور ترنگ میں آتا تو اپنے دقیانوسی گراموفون سے گانے سنتا یا پھر اپنی بیوی کی گرم آغوش سے لطف اندوز ہوتا۔ گھر میں اس کی بیگم کی دُسراہٹ کے لیے ایک دور پرے کی سالی بھی رہتی تھی۔ اُس کا نام صوفیہ تھا۔ صوفیہ ایک بن بیاہی عورت تھی جو چالیس کے پیٹے میں تھی اور جس کا پانچ سال پرانا گٹھیا کا مرض اس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کر رہا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس کا برتاؤ صوفیہ کے ساتھ اتنا ہی ظالمانہ تھا جتنا اُس کے ناکام معاشقے کا۔ تیس برس سے ذرا زیادہ عمر کی زہرہ صوفیہ سے زیادہ خوش نصیب تھی۔ لا ولد ہونے کے باوجود وہ شیخ کی بیوی ہونے کے ناتے زندگی کے مزے لُوٹ رہی تھی۔ وہ اس تصور میں مگن رہتی تھی کہ پختہ سِن ہو جانے کے باوجود اس نے اپنی طراوت کو برقرار رکھا ہوا تھا جس پر نئی نسل انگاروں پر لوٹتی تھی۔ رہی اس کے چہرے کی بناوٹ تو اب بھی اس کی ناک کا بانسہ اونچا اُٹھا ہوا تھا۔ اس کی گہری آنکھوں کو گھنی بھنووں نے اور بھی نمایاں کر رکھا تھا۔
صوفیہ اور زہرہ دور کے رشتے سے خالہ زاد بہنیں تھیں۔ جب ان کی ملاقات ہوئی تھی دونوں ہی بڑی ہو چکی تھیں۔ پرانے وطن میں والدین کی وفات ہو جانے کے بعد صوفیہ کو اس کے ایک ماموں نے پالا تھا۔ چند برس بعد وہ ماموں بھی کسی انجانے مرض میں الله کو پیارا ہو گیا تو اس کو اپنی خالہ کے ساتھ اس نئے آزاد ملک میں رہنا پڑا، اس انوکھے "فری فِین" میں۔ شروع میں ہی چھوٹی چھوٹی بد گمانیوں سے ان دونوں کے دلوں میں بال پڑ چکے تھے لیکن زہرہ کے والدین کی موت کے بعد یہ ان دونوں کی ضرورت تھی کہ وہ ایک دوسرے کی رفاقت سے اس کی صبر آزما ناخوشگواری کے باوجود چمٹی رہیں۔ اگر اب ان کے دلوں میں حسد کی تلخی تھی بھی تو انھوں نے کمال عیاری سے اس پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ یہ بغض کبھی کبھار غیر شعوری طور پر ظاہر ہو جاتا لیکن اس وقت تک وہ اتنا تشویش ناک نہیں ہوا تھا کہ شیخ کے گھر کے سکون کو درہم برہم کر دیتا۔
طبیعت جولانی پر ہوتی تو دونوں خالہ زاد بہنیں ڈیوڑھی کی شہ نشین میں بیٹھ کر سستاتیں اور خوش گپّیوں میں وقت گزارتیں۔ جب یوں ہوتا تو صوفیہ آرام کرسی پر بیٹھ کر کشیدہ کاری کرتی۔ زہرہ کبھی سوزن کاری میں دیدہ ریزی نہ کرتی بلکہ جھولنے والی کرسی میں بیٹھ کر اپنی خلیری بہن کو دیکھتی اور اُس سے باتیں کر کے خوش ہوتی۔ کبھی کبھار وہ اپنے جُوڑوں کو بنا سنوار کر اپنی کَسی چولیوں میں ہی اپنی گات کو ابھارتیں اور فرمائشی قہقہے لگا کر لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ ان کی یہ پُر اسرار حرکات، جن کا راز انھوں نے چالاکی سے اپنے تک رکھا ہوا تھا، دراصل ان کی اپنی پڑوسنوں کی نقّالی ہوتی تھی کہ وہ کس طرح اٹھتی بیٹھتی تھیں، ان کی روزمرّہ کی عادتیں اور یہ کہ ان کے شوہر ان کی کیسی گت بناتے تھے۔
"ذرا سوچو تو" صوفیہ ایک سہ پہر پڑوسیوں کے اس ایک سے اُکتا دینے والے موضوع کو چھوڑ کر بولی۔ "اور کیا، ذرا سوچو تو..." اُس نے کاڑھنے سے ہاتھ روک کر کہا۔ "کسی نے کبھی کاہے کو سوچا ہو گا کہ شیخ تمھارا ہو جائے گا اور تم یوں ٹھاٹ کرو گی؟" مگر جی ہی جی میں اُس نے یوں کہا: جو کچھ تمھارا یہاں ہے اس پر میرا بھی پورا حق بنتا ہے۔ میں تم سے عمر میں کافی بڑی ہوں۔ بخدا ایک وقت تھا کہ تمھارا میاں تھوڑا بہت میرے قبضے میں بھی تھا۔ وہ تو تمھاری بے حیائی نے․․․
زہرہ نے اپنی خالہ زاد بہن پر نظر ڈالی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "اے لو، ہر ایک کو اس بات کی امید تھی۔ یاد نہیں جب شیخ محمود نے میرا ہاتھ دیکھا تھا تو کہا تھا: زہرہ، اپنی آنے والی بختاوری پر الله کا شکر ادا کرو۔ یہ لکیریں بتاتی ہیں․․․"
"ارے وہ کھوسٹ نجومی... اور یاد ہے اُس نے مجھ سے کیا کہا تھا؟ کیا وہ بد فال نہیں تھی؟ میں نے تو اُس کا ٹینٹوا دبا دیا ہوتا․․․" اُس لمحے صوفیہ کے پتلے حسّاس جبڑے کپکپاتے ہوے یوں بھنچ گئے گویا وہ اپنی کسی اندرونی تکلیف کو دبا رہی ہو۔
"اوہو صوفیہ، اب اُس پر اتنا غصّہ تو نہ کرو۔ اُس نے تو ایک سچی بات کی پیش گوئی کی تھی۔"
۔۔۔۔۔اقتباس
٭٭٭