صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


افسانہ و افسوں

پروفیسر غلام شبیر رانا

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

 ایک صدی کے بعد۔ اقتباس

     ایک صدی کی عمارت بھی  عجیب مکان اور نہایت پر اسرار ماحول تھا۔ ہر طرف زاغ و زغن، بوم اور شپر منڈلاتے دکھائی دیتے تھے۔ ہر شخص اس مکان کو دیکھ کر حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتا اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتیں۔ یہ سال دو ہزار چار  عیسوی کے آخری مہینے کی ایک خنک شام تھی۔ میں اس طرف سے گزرا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ گر دو نوا ح کے لوگ اس قدیم فن تعمیر کے شاہکار مکان کو دیکھ کر آہیں بھرتے اور نیرنگیِ تقدیر جہاں سے عبرت حاصل کرتے۔ مکان کیا تھا ایک وسیع و عریض محل تھا جو دو کنال کے قریب رقبے پر پھیلا ہو تھا اور جس کے چاروں جانب بلند فصیل اور اس کے اندر چاروں جانب کمرے تھے۔ مکان کے صدر دروازے پر سنگ مر مر کی کئی  بڑی تختیاں نصب تھیں جن  پر جلی حروف میں اس عمارت کے آخری مکینوں کے نام اور عمارت کی تاریخ انہدام بھی  درج تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ایک صدی کے بعد اس عمارت کی نئی تعمیر ہوتی چلی آئی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر نو کرانے والوں اور اس کے اولین مکینوں کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہ تھا۔ یہ ایک معما تھا کہ اس عمارت کے مکین اس میں دس برس سے زائد قیام نہ کر سکے اور ان سب کو ناگہانی حالات کے باعث یہ مکان خالی کرنا پڑا۔ اس مکان کے آخری مکین کے حصے میں جو ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی آتی وہ ا ن ننگ انسانیت درندوں کو عبرت کی مثال بنا دیتی اور ان کے نام اس عمارت کی تعمیر نو کے وقت اس پر کندہ کر دئیے جاتے۔ ’’ نابو اور شانتی:  سال انہدام 1706‘‘  ’’ نعمت خان کلاونت اور لال کنور :سال انہدام  1806‘‘اس کے بعد آخری تختی تھی جس پر یہ تحریر درج تھی ’’صاحباں اور مرزا :سال انہدام 1906‘‘مجھے یہ جان کر تشویش ہوئی کہ یہ عمارت محض دو سال کے بعد صفحہ ء ہستی سے نا پید ہو جائے گی۔ ابھی میں ان سوچوں میں گم تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک ضعیف آدمی جس کی عمر سو سال سے زائد ہو گی اس عمارت کے قریب آیا اور زار و قطار رونے لگا۔ میں اس کے قریب جا پہنچا اور اس سے مخاطب ہو کر کہا :

     ’’بابا جی !یہ ایک صدی کی عمارت کا کیا قصہ ہے ؟

     ضعیف آدمی نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ’’یہ عمارت ایک صدی کے بعد اپنا قالب بدل لیتی ہے۔ سب کچھ تہس نہس ہو جاتا ہے۔ ہر چیز ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ اس عمارت کا حقیقی وار ث بھی اس حادثے کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اس کے بعد چند روز  تک لوگ اس کے قریب بھی نہیں جاتے جب تمام واقعات پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ جاتی ہے تو پھر سے اس کی تعمیر نو ہوتی ہے اور ٹھیک ایک سو سال کے بعد یہ پھر مکمل طور منہدم ہو جاتی ہے۔ یہی عمل گزشتہ کئی صدیوں سے دہرایا جا رہا ہے۔ ‘‘

   ’’ یقین نہیں آتا۔ ۔ ۔ بالکل عجیب اور پر اسرار سی کیفیت ہے ‘‘میں نے کہا ’’آخر اس تمام بربادی کا کوئی تو پس منظر بھی ہو گا ؟آفات نا گہانی، زلزلے، آتش زدگی یا کوئی اور حادثہ ؟‘‘

   ’’ ان دنوں اس عمارت میں کیا ہو رہا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں ‘‘بوڑھے نے کر ب ناک لہجے میں کہا ’’شباہت شمر اور ناصف بقال نے ورکنگ ویمن ہاسٹل بنا رکھا ہے مگراس کی آڑ میں یہاں قحبہ خانہ، چنڈو خانہ اور عقوبت خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ شامت اعمال ہے جو کسی آفت ناگہانی کی صور ت میں سب کچھ تباہ و برباد کر دے گی۔ یہاں سر عام عزتوں کو نیلام کیا جاتا ہے۔ جسم فروش اور ضمیر فروش رذیل طوائفیں یہاں کھل کھیلتی  ہیں۔ ناصف بقال اور شباہت شمر کے قبیح کردار، جنسی جنوں اور بے غیرتی اور بے حیائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب ان کا جانا ٹھہر گیا ہے یہ صبح گئے کہ شام گئے ‘‘

    ’’  یہ سرا سر توہم پرستی ہے ‘‘میں بولا ’’دنیا بھر میں متعدد عمارات ہزاروں سال سے موجود ہیں ان علاقوں میں بھی سارے کے سارے پارسا، زاہد اور متقی نہیں رہتے۔ دنیا میں ہر جگہ رند، بگلا بھگت، کالی بھیڑیں ، سفید کوے اور گندی مچھلیاں پائی جاتی ہیں لیکن افراد کی بد اعمالیوں کا عمارات کے انہدام سے کوئی تعلق بنتا نظر نہیں آتا۔ اہرام مصر، تاج محل، دیوار چین  اور ایفل ٹاور وغیرہ۔ اب انسانوں کی  بد اعمالیوں کا عمارت  سے کیا تعلق ؟اگر ایسا ہوتا تو شالا مار باغ، مقبرہ جہانگیر اور قلعہ کہنہ اب نا پید ہو چکے ہوتے۔ ‘‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول