صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اُردو اَفسانہ اور افسانے کی تنقید
محمد حمید شاہد
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
حصہ دوم
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تنقید کی بنیاد: ٹیڑھی اینٹ کا شاخسانہ
یہ مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مرزا نوشہ کی نثر کی تقلید میں اردو نثر نے اپنے آپ کو بدلا وہ جو بن بن کے لکھنے کا چلن ہو چلا تھا اور بنا بنا کر عبارت کو کھینچا جاتا تھا، لگ بھگ تب سے اس کا سلسلہ موقوف ہوا جب دساوری تخلیقات تراجم کی صورت میں اردو میں ڈھلنے لگیں۔ اردو زبان میں یہ جو وسعت آچلی تھی کہ وہ کہانی کے ہر تیور اور ہر جنبش کو اپنے اندر سمیٹ لینے پر قدر ت رکھنے لگے بظاہر یوں لگتا ہے کہ مغربی استبداد کے زمانے کی دین تھی۔ اسی "بظاہر" مےں خرابی یہ ہے کہ ہمارے فکشن کے ناقدین افسانے کے باب میں لگ بھگ سارے تنقیدی فیصلے کامن سینسن کے زور پر کرنے لگے ہیں حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ یہ کامن سینس اتنی بھی کامن بھی نہیں ہوتی۔ اردوافسانے کی تاریخ کو بالعموم یا توعلامہ راشدالخیری کے افسانے "نصیر اور خدیجہ "سے شروع کیا جاتا ہے یا پھرمنشی پریم چند کو حقیقی بانی مان کر بات آگے بڑھالی جاتی ہے اور ایسے میں اس زمین سے اگی ہوئی اور اس فضا میں پلی بڑھی اس ساری روایت کی جانب پشت کر لی جاتی ہے جو افسانے کے سپر اسٹریکچر میں تو نظر نہ آتی تھی اس کے ڈیپ اسٹریکچر کا بہر حال جزو ہو گئی تھی۔ یہ جو میں بھی قبل ازیں سمعی روایت کے پچھڑنے کی بات کرتا رہا ہوں ، داستان اور قصے کہانی کے پسپا ہونے کاقصہ سناتا رہا ہوں تو اس کے قطعا یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمارے ہاں افسانے مغربی چولا پہن کرآیا تو اپنی روح سے محروم ہو گیا تھا۔
مجھے اپنی بات ڈھنگ سے کہنے کا موقع ملے تو عرض کرنا چاہوں گا کہ ادب کی تخلیق کا معاملہ کسی بھی سماج کی خارجی کروٹوں سے کہیں زیادہ اس کے اندر ہی اندر رواں تہذیبی لہروں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سماج میں آنے والی ثقافتی تبدیلیاں کسی کی ہیئت کو تبدیل کر دیتی ہیں جیسا کہ نظم اور خود افسانے کے باب میں ہوا یا پھر کسی صنف کو سرے سے ہی ماضی کا حصہ بنا دیں ، داستان سے لے کر مثنوی تک کی مثال سامنے کی ہے، لیکن یہ کہاں ممکن ہے کہ یہ ثقافتی مظاہر، تخلیقی عمل کی تہذیبی کیمسٹری کو ہی بدل کر رکھ دیں۔ افسانے کے باب میں ، جس تخلیقی عمل کی میں بات کر رہا ہوں ، ہیئت کی تبدیلی کو تسلیم کیا گیا ہے مگر جو افسانوی بھید بھاؤ اس کے حصے میں آئے وہ ہماری اپنی تہذیبی روایت کی دین ہیں۔
رہ گئی وہ بات جو میں اوپر اردو افسانے کے لیے موزوں ہو جانے والی زبان کی بابت کہہ کر مرزا نوشہ سے جوڑ آیا ہوں تو یہاں بھی یہ وضاحت کیے دیتا ہوں کہ یہ وقوعہ ایکا ایکی نہیں ہو گیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ مسلمان فاتحین کے زمانے میں درباری زبان فارسی تھی اور وہیں ہماری غزل کی پرداخت ہوئی مگر یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ دربار سے باہر کھلی فضا میں اور لوگوں کے بیچ جو اردو زبان متشکل ہو رہی تھی وہ غزل کے بجائے نثر کے لیے موزوں تھی۔ مسلمان تاجروں اور سیاحوں کے ہندوستان کے مقامی لوگوں سے میل جول نے ایک ایسی زبان کے لیے راہ ہم وار کر دی تھی جس میں قصہ کہانی کا فطری عمل زندگی کو سمجھنے کا قرینہ ہوا۔ یہی سبب ہے کہ صوفی ، سنت ، فقیر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے انہیں اپنی بات شاعری میں بھی کرنا ہوتی تو اسے کہانی بنا لیا کرتے تھے۔ جب صوفیا اور بھگتی تحریک کے شعرا اخلاص اور محبت کی کہانی کہہ رہے تھے تو لگ بھگ یہ چلن ہو چلا تھا کہ انسان، اس کی تخلیق اور کائنات کے حوالے سے اگر کوئی بنیادی اور بڑی بات کہنی ہے تو چاہے اسے منظوم ہی کیوں نہ کرنا پڑے کہانی سے مدد لی جائے ورنہ شاعری کے رموز و علائم تو درباروں سے وابستہ شاعروں کے ہاں مرتب ہو رہے تھے۔
لگ بھگ یہی وہ زمانہ بنتا ہے جب ہماری اردو ادب میں تنقید کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی۔ مجھے خیال سا گزرتا ہے کہ اردو ادب کی تنقید کی ابتداء ہی خرابیوں سے ہوئی جس نے آگے چل کر جن رویوں کی طرح ڈالی وہ کم از کم فکشن کے حق بہتر تو کیا ثابت ہوتے قابل قبول بھی نہیں رہے۔بتایا گیا ہے کہ اردو میں تنقید کا چلن فارسی شعرا کے تذکروں کی تقلید سے ہوا۔ اس ضمن میں محمد عوفی کے لکھے ہوئے تذکرے "لباب الالباب" سے لے کر ابو طاہر خاتونی کے "مناحب الشعرا تک کی بات صراحت کے ساتھ کی جاتی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں فارسی میں شعرا کے تذکروں کا خوب خوب سلسلہ چل نکلا تھا اور ڈاکٹر علی رضا کے مطابق ایک وقت میں یہ تذکرے تین سو چودہ ہو گئے تھے۔ اسی تقلید میں جب میر تقی میر اردو شاعروں کا تذکرہ "نکات الشعرا" لکھ رہے تھے تو اردو نثر کا خوب چلن ہو چلا تھا مگر اسے اس بابت سوچنے کی توفیق نہ ہوئی۔ یاد رہے ۱۸۷۴ میں مکمل ہونے والے اس تذکرے میں اردو کے ایک سو تین شاعروں پر بات ہوتی ہے۔ اس تذکرے میں کئی خوبیاں ہوں گی مگر وہ خرابیاں جو اس کتاب کے بعد اردو تنقید میں راہ پا گئیں ان میں پہلی تو یہ ہے کہ ہم نثر کو بھی شاعری کے حوالے سے سمجھنے کی علت کا شکار ہو گئے ہیں۔ میر تقی میر نے اپنے تذکرے میں شاہ مبارک کے اس جسمانی عیب پر کہ اس کی ایک آنکھ نہیں تھی آڑے ہاتھوں لیا تھا لہذا ہماری تنقید کا یہ منصب ٹھہرا ہے کہ فن پارے پر کم فن کار کی شخصی کجیوں کو خوب خوب زیر بحث لانا ہے۔ میر تقی میر نے اپنے عہد کے کئی قابل ذکر شعرا کو اس لیے تذکرہ بدر کر دیا تھا کہ اس کی ان سے بنتی نہ تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد نے بھی اپنے معروف تذکرے "آب حیات" کے پہلے ایڈیشن مومن جیسے اہم شاعر کو نظر انداز کر کے اور اپنے استاد ذوق کو غالب سے بھی زیادہ اہم شاعر سجھا کر لگ بھگ اسی چلن کو ہوا دی تھی۔ یہی وتیرہ بعد کے زمانے میں ہمارے ناقدین نے اپنا لیا ، سامنے کی مثال ایک سرکاری ادبی ادارے کا افسانے کی روایت کے حوالے سے مرتب ہونے والی ایسی ضخیم کتاب کا چھاپنا ہے جس میں سے کئی اہم افسانہ نگاروں غائب ہو گئے تھے۔ لطف کی بات ہے کہ بعد میں ای نجی ادارے سے اسی مرتب کی اسی نوعیت کی ایک اور کتاب چھپتی ہے تو یہی غائب ہونے والے ، تعلقات بہتر بنا لینے کی وجہ سے کتاب کا حصہ ہو گئے کہ اس بار کچھ ا ور اہم لکھنے والوں کو کتاب باہر ہونا تھا۔ یہ جو ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ادبی فیصلے کرنے کا چلن ہے میں اسے ادبی بددیانتی سمجھتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس طرز عمل نے فکشن کی تنقید کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اردو افسانہ اور ثقافتی لہریں
جس زمانے میں انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اپنے سیاسی اور توسیعی عزائم کے ساتھ ہندوستان میں اندر تک گھس آئے اور کئی معاملات میں دخیل ہو گئے تھے تو انہیں اپنی ضرورتوں کے لیے مقامی زبانوں کی طرف متوجہ ہونا پڑا تھا۔ ۱۶۷۷ء میں قلعہ سینٹ جارج، مدراس کو کورٹ آف ڈائریکٹرزکی جانب سے لکھا جانے والا مراسلہ، جس میں ملازمین کو ہندوستانی زبانیں سیکھنے پر تیس پونڈ انعام کا اعلان کیا گیا تھا، انگریزوں کی نیت کھول کھول کر بیان کر دیتا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کا مقصد بھی یہی تھا۔ تاہم یہ ماننا ہو گا کہ ایک اور سطح پر اردو نے انگریز کی ان چالوں کا خوب خوب فائدہ اٹھایا اپنے تہذیبی پس منظر کو چھوڑے بغیر یہ زبان عوامی سطح پر مقبول ہوتی چلی گئی وہاں تک جہاں انسانی حیات اور اس کے تہذیبی حوالوں سے جڑی ہوئی کہانیاں ادھر ادھر موتیوں کی صورت بکھری ہوئی تھیں۔ جن تہذیبی حوالوں کی میں بات کر رہا ہوں ان میں زمین سے جڑنے والی تہذیب کا اپنے وجود کی مٹی جھاڑ کر اوپر اٹھنے اور نئے آفاق کو چھو لینے کی للک میں مبتلا اس تہذیب کا حوالہ بھی ملتا ہے جو مقامی تہذیبی مظاہر میں پیوست ہو کر ہماری کہانی کے لیے زیادہ بامعنی ہو گئے تھے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو اردو افسانے کے مزاج کی جڑیں ہند اسلامی تہذیب میں بہت گہری ہیں۔
صاحب !یہ پس منظر جو میں تمہید باندھنے کی نیت سے اوپر کہہ آیا ہوں یہ اگر ذہن نشین رہے اور اب تک اس بات کو پا لیا گیا ہو کہ سماجی سطح پر ثقافتی تبدیلیوں سے کہیں زیادہ ادبی فن پاروں کی تعیین قدر اس تخلیقی عمل سے ہوتی ہے جس کے سوتے اس سماج کی تہذیبی روح سے پھوٹتے ہیں تو اردو افسانے کے اس تخلیقی چلن کو جو ابتدائی نمونوں سے اب تک چلا آ رہا ہے اسے صحیح صحیح آنکنے میں بہت سہولت رہے گی۔ اسی کسوٹی کا شاخسانہ ہے کہ راشد الخیری کو پہلا اَفسانہ نگار تو مانا جاتا ہے مگر پہلا حقیقی افسانہ نگار پریم چند کو قرار دیا جاتا ہے۔
تعیین قدر کا مسئلہ اور ضمنی حوالے
تخلیقی معیاروں پر فن پارے کی قدر قائم کرنے کے بجائے اسے کسی اور حوالے سے دیکھنے کے چلن نے اردو افسانے کی تاریخ مسخ کر کے رکھ دی۔ صرف افسانے ہی کی نہیں خود ادب کی بھی۔ اور یہ میں یوں کہہ رہا ہوں کہ اسی عادت نے ہمیں اصناف سے اصناف بھڑانے کی طرف مائل کیے رکھا ہے۔ کہیں دور کیوں جائیں ہمارے شمس الرحمن فاروقی بھی شاعری کے مقابلے میں نثر کو نیچا دکھانے کے جتن کرتے رہے ہیں۔ جس طرح میں اصناف کے درمیان اس طرح کی درجہ بندی کی ساری کوششوں کو کار لاحاصل سمجھتا ہوں بالکل اسی طرح میرا یقین ہے کہ صرف اور محض خارجی رویوں اور محرکات کی وجہ سے افسانہ نگاروں کی درجہ بندی کا غدر مچا دینا قطعاً نامعقول بات ہو گی۔
لیجئے اب اگر ہم یہ طے کر چکے ہیں کہ ہم ہر فن پارے کو اس کے اپنے ادبی معیاروں پر جانچیں گے تو سوال پیدا ہوتا ہے کون سے معیار؟ کیا ادبی معیار مستقل طور پر متعین کیے جا سکتے ہیں ؟؟ یہ دوسرا سوال ہے جو پہلے سوال سے خود بخود نکل کھڑا ہوا ہے۔ میرا اس باب میں جواب "ہاں " بھی ہے اور "نہیں " بھی۔ ہاں ، یوں کہ کسی تحریر کے لیے اس کا" تخلیق پارہ " ہونا ہی اس کے ادب پارہ ہونے کی بنیادی شرط ہے اور یہ مشقت سے نہیں بلکہ ایک تخلیقی عمل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایک تخلیق کار کے ہاں تخلیقی عمل کس طرح کام کرتا ہے اور اس کے بھید کیا ہے اس پر میں "تخلیق کے اسرار" کے عنوان سے ایک الگ مضمون میں کچھ باتیں کہہ آیا ہوں لہذا انہیں دہراؤں گا نہیں تاہم یہاں یہ کہنا ہے کہ وہ باتیں تخلیق کاروں کے ہاں تخلیقی عمل کی شناخت کے حوالے سے تھیں جب کہ اس وقت میرے سامنے مسئلہ افسانے کی قدر کے تعین لیے بنیادیں تلاش کرنے کا ہے۔ یہیں آگے بڑھنے سے پیشتر ، وارث علوی نے افسانے کے مطالعے کے لیے جن پہلوؤں کی جانب نشان دہی کی تھی ، ایک نظر ان پر ڈال لیتے ہیں :
"کہانی، پلاٹ، کردار، تمثیل، علامات، اساطیر، تیکنیک، تھیم، امیج، استعارہ، مرقع، تصویر گری، منظر نگاری، مقام، ماحول، فضا، قدرتی اور تہذیبی پس منظر، موزونیت، آہنگ، تضاد، تصادم، معروضیت، ڈرامائیت، لب و لہجہ، اسلوب، بیانیہ، لسانی ساخت، نقطہ نظر، جمالیاتی فاصلہ، طنز، ظرافتirony, ، المیہ، طربیہ، نفسیاتی فلسفیانہ سماجی اخلاقی ڈائی منشن اور پھر موضوعات کے ان گنت ذیلی مباحث اور نکات"(افسانے کی تشریح :چند مسائل /وارث علوی )
موضوعات کی یہ وہ فہرست ہے جو وارث علوی نے افسانے کے ناقدین کے ہاتھ میں تھمائی، اس لائسنس کے ساتھ چاہو تو اس میں اضافہ کر لو اور اسے حق دیا کہ وہ افسانے کے جس پہلو کا اور جس پہلو سے افسانے کا مطالعہ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ یہ دعوا کہ محض بیانیہ یا زبان یا لسانی ساخت کا مطالعہ ہی افسانے کے تمام فنی اور معنوی اسرار کو منکشف کر سکتا ہے ، درست نہیں۔ افسانے کے مطالعے کے لیے جو نسخہ وارث علوی نے افسانے کے ناقدین کے لیے تجویز کیا ہے ، جب افسانے کی تعبیر کا معاملہ آتا ہے تو وہ خود بھی اس پر کامل یقین نہیں رکھ پاتا کیوں کہ بقول اس کے تعبیر ایک خود سر ، خود پسند مغرور حسینہ ہے۔ افسانے میں ادبی سطح پرتعیین قدر نشان کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے وارث علوی کی فہرست مجھے یوں بوجھل لگتی ہے کہ اس میں بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کے بغیر بھی افسانہ مکمل ہو جاتا ہے۔ مثلاً دیکھئے جس کہانی کی بات وارث علوی نے کی ہے ایک عرصہ تک اس کے بغیر کام چلایا جاتا رہا۔ اس سے پہلے تھیم اور پلاٹ کو عسکری نے اپنے افسانوں سے منہا کر کے دکھا دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ یوں بھی افسانہ لکھا جا سکتا ہے۔ کتنی کہانیوں میں تمثیل کاری ہوتی ہے یا انہیں اساطیر سے جوڑا جاتا ہے؟؟۔ علامت کا معاملہ دلچسپ ہے۔ سچ پوچھیں تو ہر کامیاب کہانی مکمل ہونے کے بعد علامت کا فریضہ بھی سرانجام دے رہی ہوتی ہے۔ علامت کا وہ تصور جو ساٹھ اور ستر کے عشروں میں پروپیگنڈے کے زیر اثر ہر کہیں اچھالا جاتا رہا، اب مردود ہو گیا ہے۔ میرا خیال ہے اور آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے کہ امیج، استعارہ، مرقع اور تصویر گری جیسے مباحث شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے تو مرکز میں رہتے ہیں افسانوں کو جانچتے ہوئے انہیں حاشیے پر جانا ہوتا ہے۔ غرض وارث علوی کی بنائی ہوئی فہرست کے آپ جس بھی حوالے کو اٹھائیں گے وہ ہمیں کسی بھی فن پارے کو مکمل طور پر جانچنے کے لیے ناکافی محسوس ہو گا۔ جب افسانے کی تعبیر کا معاملہ اتنا صاف نہیں ہے تو کسی بھی تخلیق کی ادبی قدر کا معاملہ اس سے کہیں گھمبیر ہو جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو افسانے کی تشریح ہو یا تعبیر ، ان دونوں کا معاملہ مواد سے ہوتا ہے یا پھر اس لسانی اور تکنیکی حیلوں سے جنہیں کام میں لا کر مواد کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس سارے بکھیڑے میں تخلیقی عمل کس نہج پر کام کر رہا ہوتا ہے افسانے کے شارحین اور معبرین کو اس سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں رہتا۔ یہیں اس غیر ادبی طرز عمل کی نشان دہی بھی ہو جانی چاہیے جس کے زہر اثر تخلیقات کے تجزیاتی مطالعات کا چلن ہو چلا ہے۔ لیجئے آپ مجھے بتانا چاہتے ہیں کہ اس بدعت کو کس نے شروع کیا تھا؟ بجا مگر مجھے یہ جواز بھی مرعوب نہیں کرتا اور اس کا سبب یہ ہے کہ تجزیاتی مطالعہ بنیادی طور پر کسی بھی فن پارے کے اجزاء کو الگ الگ کر کے دیکھنے کا نام ہے۔ ایسے میں تخلیقی عمل کا بھید جو فی الاصل کسی بھی تحریر کو فن پارہ بتاتا ہے، اوجھل رہتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ تجزیہ بازی اور تجزیہ سازی کا یہ ڈھکوسلا افسانے کے باب میں زیادہ رواج نہیں پا سکا اور اس سے صرف نظم والے ہی مستفیض ہو رہے ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا تاہم یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے تجزیاتی مطالعے بھی افسانے کی قدر قائم کرنے میں کام نہیں لائے جا سکتے۔
اردو افسانے کے ناقد کے لیے ان سارے رخنوں کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ اسے وہ ساری رکاوٹیں اور مشکلات الانگھنا ہوں گی جو ہمارے ہر فن مولا قسم کے ناقدین نے خوب خوب جتن کر کے ادھر ادھر پھیلا رکھی ہیں۔ مثلاً دیکھیے کہ وزیر آغا نے ایک زمانے میں افسانے کے تین ادوار قائم کیے تھے۔ ایک میں کچھ افسانہ نگاروں کو جھونکا ، دوسرے اور تیسرے میں کچھ اور کو اوریوں افسانے کی تنقید کا فریضہ ادا کر کے کلانچیں بھرتا وہ دوسری طرف نکل گیا کہ اس طرح فکشن کی تنقید کا حق ادا ہو گیا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے افسانے کی حمایت کے نام پر افسانے کی صنف پر ایسا مقدمہ قائم کیا کہ فکشن لکھ کر کفارہ ادا کرنے کے باوجود ابھی تک اپنے کہے کی وضاحتیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ عسکری کو فکشن پر لکھنا آتا تھا مگر وہ بہت جلد فکشن لکھنے اور فکشن پر لکھنے سے اوب گیا۔ لگ بھگ ایسا ہی معاملہ اوروں کا ہے لہذا اس باب کے رخنے شمار کرنے بیٹھا ہوں تو بات ہیئت کے مطلق خادموں ، رومانویت کو ہی حرف ادب سمجھنے والے نازک خیالوں ، ترقی پسندی کے نام پر شدت پسندی کو رواج دینے والوں ، عقل کو تخلیقی بھید کے مقابل لا کھڑا کرنے والے جدیدیوں سے ہوتی ہوئی ما بعد کے تنبے پر معنی کے بکھراؤ کا پکا راگ الاپنے والے گویوں تک پھیلے چلی جاتی ہے۔ جی ، مجھے اب کہہ لینے دیجئے کہ افسانہ لکھتے ہوئے یا پھر بعد ازاں اسے ادب پارہ تسلیم کرتے ہوئے ان سارے معیاروں کو نئے سرے سے دیکھنا ہو گا کہ ساری خرابی اسی تنقیدی دھول دھپے کا شاخسانہ ہے جس کا نقشہ میں اوپر کھینچ آیا ہوں یا پھر جو اردو ادب کے پروفیسر حضرات اپنے طالب علموں کو رٹا کر انہیں کند ذہن بنائے چلے جانے کے لیے گھڑ لیا کرتے ہیں۔
نیا زمانہ ، نئے تخلیقی مزاج کا افسانہ اور تنقیدی مسائل
صاحب افسانے کے باب میں جو مسائل مجھے پریشان کرتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اب آپ افسانے کو لمحہ رواں کے آشوب سے کنی کاٹ کر نہ تو لکھ سکتے ہیں نہ اس کی ادبی قدر کو طے کر سکتے ہیں۔ پھر اس لمحہ گزراں کی نیرنگیاں اور ستم ظریفیاں اتنی عجب ہیں کہ انہیں گرفت میں لینے بیٹھو تو روایتی صلاحیت والا آدمی پل بھر میں اتھلا ہو کر ننگا ہو جاتا ہے۔ میں اس پر زور دیتا آیا ہوں کہ تخلیقی عمل کے دوران لکھنے والا اکیلا ہو جایا کرتا ہے۔ اور اب اس باب میں یہ وضاحت کرنا پڑ رہی ہے کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی سہولت سے میں نے کہہ دی تھی۔ دیکھا جائے تو انفرادی شعور کسی نہ کسی سطح پر ثقافتی شعور کی لہروں سے غذا پا رہا ہوتا ہے۔یہ بات گرہ میں باندھنے کی ہے کہ یہ ثقافتی کروٹیں محض کسی جواں سال بیوہ کے بستر کی سلوٹیں نہیں ہوا کرتیں کہ انہیں تہذیبی شعور بہر حال اپنے زیر اثر رکھتا ہے۔ جی میں اسی تہذیبی شعور کی بات کر رہا ہوں جو بظاہر غیر فعال ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سب پر مستزاد وہ تہذیبی اور ثقافتی لین دین ہے جس سے اجتماعی شعور روح عصر میں ڈھلنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ تماشا جو ناقد کی کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے اور جسے وہ نئے زمانے میں افسانے کے تانے بانے کا حصہ بنتے صاف دیکھ رہا ہوتا ہے کیا وہ اسے افسانے کی تنقید سے الگ رکھ کر ادبی سطح پر درست نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس باب میں اگر اس کا تنقیدی اور ادبی شعور تازہ نہیں ہے تو اسے افسانہ اور افسانے کی تنقید سے پہلے اپنی حسیات کی تربیت اور تازگی کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ بہت خرابی ہو گی۔
خرابی ہو گی ؟....کیا کہا صاحب ؟ ہماری سدھائی ہوئی حسیات نے کیا اب تک افسانے کی تنقید کو کج راہ نہیں کر رکھا۔ ذرا ان صاحب کو دیکھنا جو نئے شعور کو افسانے کا حصہ بنتے دیکھ کر بھونچکے وہیں کے وہیں کھڑے ہیں بلکہ رخ بدل کر ماضی کی کہانیاں نئے شعور کے تازہ پانیوں سے دھوئے ادھر لڑھکاتے ہوئے کہے جاتے ہیں ، حیرت ہے بھئی حیرت ہے۔
میرے لیے تو یہ حیران کن بات ہے کہ جب وہ معتبر لکھنے والا، جس نے ایک ادبی روایت کی طرح ڈالی ہو اپنا شمار نہ صرف اوپر والے حیرت زادوں میں کرے اس کا باقاعدہ ڈھنڈورچی بھی بن جائے۔ کسی زمانے میں یہ بات بھلی لگتی تھی کہ جب تک منظر آنکھ اوجھل نہیں ہو جاتا، چیزیں پرانی نہیں ہو جاتیں ، واقعات ماضی کی دھول میں دفن نہیں ہو جاتے اور کردار مر مرا نہیں جاتے انہیں ادب نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ نئی صورت حال نے اس تصور تخلیق میں شگاف ڈال دیے ہیں۔ ہماری تنقید کو بھی یہ بات سمجھ لینا ہو گی۔ اس نئے تناظر میں ناقد کی ذمہ داری یوں بڑھ جاتی ہے کہ اسے افسانے کی ادبی قدر کا ادراک کرنے کے لیے اپنی حسوں کو نئے جمالیاتی بعد سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ گزرے وقتوں میں جمالیاتی بعد کی عدم موجودگی یوں کھلتی نہ تھی کہ تب کہانی کا لوکیل ماضی میں رکھ کر فاصلاتی بعد سے قاری کو غچہ دینا آسان بلکہ کارگر فارمولا تھا۔ نئے عصر کی تیز بوچھاڑ میں بھیگتی ہوئی کہانی کو جانچنے والا جب تک یہ نہیں سمجھے گا کہ کسی بھی فن پارے میں جمالیاتی بعد محض اور صرف فاصلاتی بعد نہیں ہوتا تو وہ فن کار کے باطن سے کشید ہو کر فن پارے کی روح ہو جانے والی اس مقناطیسیت کو گرفت میں لے پائے گا جو اس تخلیق کا آہنگ بنا رہی ہوتی ہے۔ یاد رہے یہ آہنگ زبان کی سطح پر بھی کام کر رہا ہوتا ہے اور اس کے باطن میں معنیاتی سطح پر بھی۔
واقعہ ، کہانی ، افسانہ، زبان اور تخلیقی آہنگ
اب اگر بات زبان اور باطنی آہنگ کی چل نکلی ہے تو کہتا چلوں کہ میں ان لوگوں میں خود کو قطعاً شمار کرنا نہیں چاہوں گا جو تخلیق کو محض زبان یا پھر اس کے استعمال سے زیادہ کا درجہ دینا نہیں چاہتے اور فن پاروں کو بھی لسانی فارمولوں پر پرکھنے کو ادبی تنقید گردانتے ہیں تاہم مانتا ہوں کہ ان فارمولوں سے ابتدائی اور تیکنیکی نوعیت کی مدد لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے بالکل اسی طرح جس طرح اس باب میں دوسرے علوم کے اسالیب سے مدد لی جا سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو زندگی کا تجربہ ہمارے اوپر افسانے کی طرح بیت رہا ہے۔ لہذا وقت اور دنیا کو سمجھنے کا بہترین وسیلہ یہی صنف بنتی ہے۔ افسانہ کہ جس کا کچھ حصہ زمین کے اندر گہری ہو چکی جڑ کی طرح ہوتا ہے: آنکھوں سے اوجھل مگر کئی تہوں اور پرتوں سے غذا کشید کرنے والی جڑ جیسا۔ دوسرا اس تنے کا سا ، جس پر بظاہر درخت قائم ہوتا ہے۔ آپ اسے افسانے کے سپر اسٹریکچر سے تعبیر دے سکتے ہیں۔ افسانے کی تخلیقیت کو جانچنے کے لیے ہمیں اس کے اندر سے پھوٹتے اس جمالیاتی اور معنیاتی دھارے کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کراؤن کی طرح متن کو اپنے وجود سے ڈھک لیتا ہے۔ یوں دیکھیں تو زندگی کا ہر روپ اسی کراؤن کے اندر سے برآمد ہو رہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کہ جادوگر کے ہیٹ سے چھلانگیں لگاتا خرگوش یا فضاؤں میں قلابازیاں کھانے والا کبوتر برآمد ہوتا ہے۔ یاد رہے زندگی کو چاہے جتنے قرینے سے برتا جائے اور چاہے لاکھ احتیاط سے اس کانچ کے برتن کو اٹھایا جائے ہمیں اپنے مقدر کی ٹھوکر ضرور کھانا ہو گی اور ہمیں اپنے حصے کی حیرت کو وصول کرنا ہی ہو گا۔ تو یوں ہے کہ یہی حیرت اور یہی دکھ ہمیں کہانی کے کراؤن سے قسطوں میں برآمد کرتے ہیں جس سے کہانی کا بیانیہ متشکل ہو رہا ہوتا ہے۔
وہ بھائی لوگ جو افسانے کے بیانیہ سے مراد ماجرا کہنے کی ادا کو لیتے ہیں ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ سیدھے سبھاؤ واقعہ چلا لینا اور بات ہے اور اسے فکشن کی زبان میں برت کر اس میں سے افسانہ نکال لانا بالکل دوسرا معاملہ ہے۔ یہاں بیانیہ سے میری مراد ٹھس ماجرائی بیان قطعاً نہیں ہے۔ میں جس بیانیہ کی بات کر رہا ہوں ، کوئی بھی افسانہ اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا لہذا میرے لیے وہ ساری تنقید کار فضول ہو جاتی ہے جس میں مختلف افسانوں کو الگ الگ دکھانے کے لیے انہیں بیانیہ اور علامتی کے کھونٹے پر باندھا گیا ہے۔ ہمارے فکشن کے ناقدین کو اس بابت بھی ذرا ڈھنگ سے سوچنا ہو گا اور کسی بھی افسانے کی ادبی قامت ماپنے اور اس کی درجہ بندی کرتے ہوئے محض یہ کہہ کر پلو نہ چھڑانا ہو گا کہ فلاں افسانہ بیانیہ ہے اور فلاں علامتی۔ یہ علامتی کا قصہ بھی خوب ہے اس کے نام پر جو متنی کرتب بازی ہونی تھی وہ ہو چکی۔ اس نے افسانے کی جھولی میں جو کچھ ڈالنا تھا ڈال دیا تاہم اس سے وابستہ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس نے تخلیق اور غیر تخلیق کا فرق معدوم کر دیا تھا۔ فکشن کے ناقدین کو یہ بات طے کرنا ہو گی کہ جس طرح کوئی بھی لفظ کسی شے، صورتحال، احساس، کیفیت یا ماہیت کی علامت بننے کے بعد ہی بامعنی ہوتا ہے اسی طرح کوئی بھی افسانہ جب تک قدرے برتر سطح کی علامت نہیں بن پاتا تخلیق پارہ کہلانے کا استحقاق نہیں رکھتا۔ دوسرے لفظوں میں افسانہ عام زندگی کا سچ نہیں ہوتا اس سے کہیں بڑا سچ ہوتا ہے۔ افسانے کی تنقید کا یہ بھی منصب ہے کہ وہ ہر افسانے کے بیانیہ سے چھوٹتی اس دوسرے معنیاتی اور جمالیاتی دھارے کو بھی زیر بحث لائے کہ فی الاصل یہی وہ تخلیقی علاقہ ہے جس میں پہنچ کر واقعہ ، خیال ، مشاہدہ یا احساس کہانی میں ڈھلتا ہے اور کہانی کا بخت بلند ہو تو افسانہ بن جاتی ہے۔
***