صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اقبال ریویو
جمال الدین افغانی نمبر

مدیر: محمد امتیاز الدین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

جمال الدین افغانی اور اقبال

ڈاکٹر محمد ریاض


سید جمال الدین اسد آبادی افغانی انیسویں صدی عیسوی کے صف اول کے با اثر مسلمان زعما میں سے تھے۔ علامہ اقبال نے ا ن کی مساعی و نظریات کا بڑا اثر قبول کیا ہے۔ علامہ مرحوم نے اپنی تصانیف اور بیانات میں افغانی کاکئی بار ذکر کیا اور ان کی متنوع اور انقلابی خدمات کو سراہا ہے۔ ’’بمبئی کرانیکل ‘‘ کے ایک نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے پین اسلامزم کی اصلاح سے بحث کی اور ا فغانی کی اس فکر صائب کو سراہا کہ افغانستان، ایران اور ترکی کو برطانیہ کے استعماری عزائم کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے (۱)۔ اپنے انگریزی خطبات میں علامہ نے ایک جگہ افغانی کی تحریک اتحاد عالم اسلامی کی طرف ضمنی اشارہ کیا اور اسی کتاب کے چوتھے خطبے ’’انسانی انا، اس ی حریت اور باقا‘‘ میں فرمایا ہے :’’ ہمارا فرض ہے کہ ماضی سے اپنا رشتہ توڑے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر کے دوبارہ غور کریں۔ بظاہر شاہ ولی اللہ دہلوی نے سب سے پہلے بیداریِ روح کا احساس دلایا مگر اس کام کی اہمیت کا اندازہ شید جمال الدین افغانی کو تھا جو اسلام کی ملی حیات اور ذہنی تاریخ میں عمیق نظر رکھنے کے علاوہ انسانی عادات و خصائل کا بے نظیر تجربہ رکھتے تھے۔ ان کی نظر میں بری وسعت تھی اس لئے ان کی ذات ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک زندہ رابطہ بن سکتی تھی۔ اگر ان کی عدیم النظیر صلاحیتیں اس کا (اسلامی اجتہاد) کی خاطر وقف ہوتیں اور وہ اسلامی علم و عمل کی قوتوں کو مزید نمایاں کر لیتے، تو ہم مسلمان آج فکری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکتے تھے۔ ‘‘(۲)

اقبال کے دوسرے بیان میں بھی افغانی کا ارادت مندانہ ذکر ملتا ہے۔ 1934 ء۔ 1935ء میں انہوں نے احمدیت اور قادیانیت کے بارے میں چند بیانات دیئے۔ عجیب بات ہے کہ آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اپنے خاص مقاصد کے تحت اس معاملے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ پنڈت جی کے ایک بیان کے جواب میں علامہ نے تجدید دی کے موضوع پر گفتگو فرمائی اور متاخر مسلمان مصلحین کا ذکر کیا۔ آپ نے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی، سر سید احمد خاں، مفتی عالم جان، سید جمال الدین افغانی اور مفتی شیخ محمد عبدہ کے بارے میں فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو مذہبی اور روحانی پیشوائیت کے دعویداروں کے ہاتھوں اور ملوکیت کے چنگل سے نجات پانے کی راہ بتائی اور ان ہی کی مساعی کے نتیجے میں سعد زاغلول پاشا،مصطفی کمال پاشا اتاترک اور شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی اصلاحات ممکن ہو سکی ہیں۔ اس سیاق میں آپ فرماتے ہیں :’’ قدرت خداوندی کے انداز بھی حیرت انگیز ہیں دینی فکر و عمل کے لحاظ سے موجود ہ دور کا سب سے ترقی یافتہ مسلمان افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘ مولانا سید جمال الدین افغانی نے لکھا کم اور کہا بہت ہے اور اس طریقے سے انہوں نے عالم اسلام کے جن با استعداد افراد سے ملاقات کی، انہیں اس بلا خیز شخصیت اور اسلام کے بطل جلیل نے چھوٹے چھوٹے ’جمال الدین ‘ بنا دیا۔ انہوں نے کبھی بھی مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا مگر اس زمانے میں ’روح اسلام ‘ کو ان سے زیادہ کسی دوسرے نے تڑپ نہیں دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی بے قرار روح اب بھی سرگرم عمل ہو گی اور کیا خبر ان سرگرمیوں کی انتہا کیا ہو گی؟‘‘(۳) حضرت افغانی کے افکارو نظریات کا ایک معنی خیز خلاصہ علامہ اقبال کی شاہکار تالیف ’’جاوید نامہ‘‘ کے ’’فلک عطارد‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پورے باب میں افغانی اور ان کے ایک معتقد شہزادے سعید حلیم پاشا (مقتول 4 دسمبر 1921ء) کی تعلیمات کا عصارہ موجود ہے مگر اس کی کیفیت بیان کرنے کی خاطر افغانی کی حیات، تصانیف اور افکار کے بارے میں ایک تحقیقی شذرہ پیش کرنا اور ان ے بارے میں اردو، انگریزی، عربی اور فارسی میں موجود مآخذ پر ایک نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ البتہ اس گفتگو کو مجمل و مختصر رکھا جائے گا۔

حیاتِ افغانی

جمال الدین افغانی طباطبائی سید تھے۔ والد اور والدہ کا نام بالترتیب سید صفدر اور سیدہ سکینہ بیگم تھا۔ آپ کا علاقہ اسد(اسعد)آباد کے ایک گاؤں کونٹرنزدجلال آباد میں 1254 ہجری مطابق1839 ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے مولد میں حاصل کی اور اپنے والد سے بھی استفادہ کیا۔ تکمیل علوم و فنون کی غرض سے آپ نے کابل (جہاں انہیں سید فقر آباد کا شاہ جیسا یگانۂ روزگار استاد میسر آیا تھا) کے علاوہ ایران کے شہروں : مشہد، اصفہان اور ہمدان میں گزر کیا۔ اپنی فطری ذہانت اور ذکاوت کے بل بوتے پر اٹھارہ برس کی عمر میں (جب آپ کے والد کا انتقال ہو گیا تھا) آپ متداول علوم : تاریخ، حکمت و فلسفہ، ریاضی اور نجوم وغیرہ میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ اسی سال آپ ہندوستان تشریف لائے اور ایک سال تک یہاں قیام فرمایا اور اردو و نیز انگریزی سیکھی۔ یہاں سے حج بیت اللہ کی خاطر 1857 ء میں مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور عرب ممال اور ایران کی یک سالہ سیاحت کے بعد راہِ بلوچستان وطن لوٹ آئے۔ آپ نے فرمانروائے افغانستان امیر دوست محمد خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور اس کے بڑے بیٹے امیر محمد اعظم خاں کے اتالیق بھی مقرر ہوئے۔ امیر دوست محمد خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور اس کے بڑے بیٹے اور امیر مذکورہ کے انتقال کے بعد ان دو بھائیوں کے درمیان خانہ جنگی چھڑ سکتی تھی مگر سید جمال الدین کی صوابدید کے ذریعے یہ خطرہ ٹل گیا۔ آپ امیر شیر علی خاں کے مشیر خاص رہے اور اسی طرح امیر محمد اعظم خاں کے برسر اقتدار آ جانے کے بعد بھی آپ کا مقام محترم ہی رہا مگر امیر شیر علی خاں جب دوسری بار تخت پر قابض ہوا تو افغانی کو شک کی نظر سے دیکھنے لگا۔ اس دوران میں آپہ نے ملازمت ترک کر دی اور حج کی اجازت لے کر 1869ء میں ہندوستان کو سدھارے۔ ایک ماہ کے قیام کے بعد آپ عازم مکہ مکرمہ ہوئے اور واپسی قاہرہ تشریف لائے۔ مصر میں چالیس روز اقامت کے دوران میں آپ نے وہاں کے علماء اور ارباب بست و کشاد کو بے حد متاثر کیا اور وہاں سے دارالخلافہ استنبول آ گئے۔ استنبول میں افغانی کا بڑا احترام تھا مگر شیخ الاسلام حسن آفندی فہمی کے بغض و حسد کے نتیجے میں انہیں 1870ء میں حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ حج پر تشریف لے جائیں۔ یہ گویا قلمروئے عثمانی کو ترک کرنے کا اشارہ تھا۔ اس دفعہ حج کے بعد افغانی مصر آئے اور کم و بیش نو سال یہیں قیام فرمایا۔ وزیر اعظم ریاض پاشا کی سفارش پر خدیو مصر محمد علی پاشا نے افغانی کا ایک تعلیمی و تدریسی وظیفہ مقرر کر دیا تھا جس کی مالیت کوئی دو سو روپے ماہانہ بنتی تھی۔ وہ اپنے مکان میں گاہے گاہے جامعۃ الازہر میں در دیتے۔ وہاں پر انہوں نے اپنے جن تلامذہ کو بقول اقبال ’’چھوٹے چھوٹے جمال الدین بنا دیا تھا۔ ‘‘ ان میں محمد اسحق ادیب اور شیخ محمد عبدہ کے اسما قابل ذکر ہیں۔ شیخ احمد (مہدی) سوڈانی کے متعدد پیر و کار بھی افغانی کے حلقۂ درس میں شامل رہتے تھے مگر الازہر کے بعض اساتذہ کو افغانی کی فصاحت و بلاغت اور شخصی نفوذ سے حسد پیدا ہو گیا تھا۔ افغانی کے بعض تجدد آمیز افکار کی آڑ لے کر انہوں نے نئے استعمار دوست خدیو مصر توفیق پاشا کے کان بھرے۔ افغانی نے ’’المجلس الوطنیۃ‘‘ کے نام سے رفاہی کام انجام دینے والی ایک ’’جوانمردانہ‘‘ جماعت بنائی تھی۔ اسے بھی توفیق پاشا نے ایک خطرہ جانا اور بلطائف الحیل افغانی کا مال و اسباب مع کتب کے ضبط کر کے انہیں لندن بھجوا دیا۔ اس موقع پر ایرانی سفیر نے از راہ قدردانی افغانی کو تین ہزار پونڈ کی رقم پیش کرنا چاہتی تھی مگر آپ نے فرمایا:’’آپ اسے اپنے پاس ہی رہنے دیں۔ شیر جہاں جاتا ہے اپنا رزق پیدا کر لیتا ہے۔ ‘‘

لندن سے افغانی امریکہ گئے اور جلد ہی لندن لوٹ آئے اور چند دن بعد وہاں سے پیرس آ گئے۔ پیرس میں آپ فرانسیسی زبان سیکھی۔ مصری سیاسی پناہ گزینوں سے رابطہ قائم کیا اور عالم اسلام کے بارے میں مقامی اخبارات میں بہت سے مضامین چھپوائے۔ ان کے عزیز شاگرد شیخ محمد عبدہ بھی مصر میں 1882ء کے حریت زا ہنگاموں کے نتیجے میں جلاوطن ہو کر پیرس آ گئے تھے اور اب دونوں کی ایک مشترکہ اقامت گاہ تھی۔ رسالہ ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ جس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا، دونوں نے یہیں سے جاری کیا تھا۔ پیرس کے قیام کے دوران میں افغانی روم (اٹلی)، لندن اور استنبول گئے مگر یہاں زیادہ عرصہ نہ ٹھہرے۔ استنبول سے آپ ایران آئے۔ ناصر الدین شاہ قاچار نے ابتدا میں ان کا بڑا احترام کیا مگر ان کی بے باکی اور ملوکیت دشمن عزائم کی تاب نہ لا سکا۔ ایران سے جلاوطنی کا حکم ملنے پر افغانی ماسکو(روس) گئے اور کچھ دن بعد وہاں سے جرمنی چلے گئے۔ ناصر الدین شاہ قاچار سے یہاں انہیں ملاقات اور مبادلہ خیالات کا ایک مزید موقع مل گیا تھا۔ بادشاہ نے انہیں ایران آنے کی دعوت دی مگر اب کی بار افغانی نے قاچاری استبداد کے خلاف زیادہ موثر آواز اٹھائی اور اپنے بہت سے حامی پیدا کر لیے۔ آپ حضرت شاہ عبدالعظیمؒ کے مزار کے جوار میں گوشہ گیر ہو کر قاچاری استبدادی ملوکیت کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کر رہے تھے۔ اس حالت میں آپ کو گرفتار کر کے عراق کی سرحد خانقین تک پہنچا دیا گیا۔ خانقین سے آپ بغداد گئے اور بڑی مشکل سے 1308 ہجری میں لندن چلے جانے کی اجازت لینے میں کامیاب ہو سکے۔ بغداد کے چند روزہ قیام کے دوران میں نیز لندن جا کر آپ نے ایران کے خراب حالات کے خلاف اپنی آواز کو بلند رکھا۔ لندن سے آپ نے انگریزی اور عربی زبان میں ’’ضیاء الخافقین‘‘ نامی ایک اخبار بھی جاری کیا جسے ایرانی حکومت کی شہ پر برطانوی حکومت نے جلد ہی بد کروا دیا۔ افغانی نے ایک ایرانی سیاسی جلاوطن شاہزادے ملکم خان(م۔ ۱۹۰۸ء) کے اخبار ’’قانون‘‘ میں بھی شاہ ایران کے خلاف چند مضامین لکھے تھے۔

سنہ 1893ء میں سلطان عبدالحمید عثمانی کی دعوت پر افغانی استنبول آ گئے۔ سلطان نے انہیں سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر ایک خطیر رقم کا وظیفہ (ایک ہزار اور بقول بعض ستائیس سو روپیہ ماہانہ) مقرر کر دیا۔ سلطان عبدالحمید نے افغانی کی تحریک اتحاد عالم اسلامی کی حمایت کی اور اس ضمن میں ممالک میں اسلامی کے حکام کو خطوط و فرامین بھی بھیجے تھے۔ افغانی نے فرمایا کہ جو اسلامی ملک دوسروں سے دفاعی اتحاد نہ کرے، اس کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی جائے۔ شاہ ایران کو یہ بات پسند نہ تھی اور اس نے اس تحریک کی سخت مخالفت کی۔ افغانی نے شاہ ایران کی اس تازہ چال کا سختی سے نوٹس لیا اور اس روش کے خلاف بہت کچھ کہا۔ یکم مئی 1894ء کو ناصر الدین شاہ، تکیہ گاہ شاہ عبد العظیمؒ  میں اپنی سالگرہ منا رہا تھا کہ افغانی کے ایک معتقد مرزا رضا کرمانی نے اسے گولے کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ قاتل پر مقدمہ چلا اور اسی سال 12!اگست کو اسے پھانسی دے دی گئی مگر اس ضمن میں افغانی سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ایرانی حکومت نے ترکی سے مطالبہ کیا تھا کہ جمال الدین افغانی کو ان کے حوالے کیا جائے۔ سلطان عبدالحمید نے اس مطالبے کو رد کر دیا، مگر وہ بھی اب افغانی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ افغانی کے گرد جاسوسوں کا اتنا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا کہ وہ سرکاری مہمان خانے کو زندان خانے سمجھنے لگے تھے۔ غالباً ان ہی پریشان کن حالات میں آپ مرض سرطان مبتلا ہو گئے اور اسی حال میں 5 شوال 1314ء ہجری مطابق 9 مارچ1897ء کو انتقال فرمایا اور استنبول میں دفن ہوئے۔ تقریباً نصف گزرجانے کے بعد1944ء میں اعلیٰ حضرت بادشاہ افغانستان نے مرحوم کے تابوت کو استنبول سے کابل میں منتقل کروایا اور کابل یونیورسٹی کے احاطے میں دفن کیا۔ حال ہی میں اس پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر ہوا ہے۔

متفرقاتِ حیات اور سیرت

اصلاح کے آغاز منطقی طور پر گھر سے ہونا چاہیے، افغانی نے بھی اپنے وطن (افغانستان) میں کافی اصلاحات کیں، انہوں نے فوج کی تشکیلِ نو، سفیروں اور نمائندوں کے تقرر، ڈاک کے نظام کی بہتر تنظیم اور مدارس کی تاسیس کی خاطر حکام کورے صائب مشورے دیئے جن پر عمل کیا گیا، اخبار ’’شمس النہار‘‘ کو انہوں نے جاری کروایا اور خود بھی اس میں کئی مضامین لکھے، مصر میں ان کی تشویق و ترغیب پر دو اخبار جاری ہوئے ’’المصر‘‘ جس کی ادارت محمد ادیب اسحٰق نے سنبھالی اور ’’ابو نظارا‘‘ جسے جیمز نامی ایک شخص نے شائع کیا، استنبول میں آپ وہاں کی یونیورسٹی اور ایا صوفیہ کی مسجد میں تقریباً ہفتہ وار تقریر کرتے تھے اور سامعین نے انہیں ’’سحرالقلوب‘‘ کا لقب دے رکھا تھا، روس میں آپ تین بار تشریف لے گئے اور ان کی کوشش کے نتیجے میں زار کی حکومت نے قرآن مجید کے روسی ترجمے اور بعض اسلامی کتب کی اشاعت کی اجازت دی تھی۔

افغانی کی خداداد استعداد اور قابلیت کو مخالفین نے بھی تسلیم کیا ہے، وہ اردو، انگریزی، پشتو، ترکی، جرمن، عربی، فارسی اور فرانسیسی زبانوں (نیز کسی قدر روسی زبان) پر دستگاہ (بعض میں متوسط اور بعض میں تبحر کی حد تک) رکھتے تھے، وہ ایک ترقی پسند اور ہمہ گیر اجتہادی نقطہ نظر رکھنے والے مسلمان تھے، دوسروں کی اندھا دھند تقلید کے بے حد مخالف تھے، نتائج ے بے پروا ہو کر حق گوئی، اسلامی اتحاد و اخوت اور مشترکہ دفاعی قوتوں کے یکجا ہونے کی خاطر کام کرنا، عالم اسلام کے مسلمانوں کو ممکن حد تک استعمار پسندوں کے عزائم یس آگاہ کرنا اور ان کی قوتوں کو میدان عمل میں گامزن کرنے کی خاطر سعی کرنا، افغانی کی سیرت و فعالیت کے خاص پہلو میں، ان کی نگاہوں میں جذب و تاثیر، زبان اور قلم میں غیر معمولی زور اور ظاہری رعب و جلال تھا، وہ کم خور و کم خواب شخص تھے، صرف دوپہر کا کھانا کھاتے، رات کو بہت کم سوتے اور آہ سحری سے بہرہ ور تھے، کاتکوف روسی، ارنسٹ ریناں، بلنٹ اور ای، جی، براؤن جیسے مستشرقین ان کی معنوی صفات سے بے حد اثر پزیر ہوئے ہیں، ارنسٹ ریناں لکھتا ہے کہ اس نے ایسا منفرد اور انقلابی مسلمان پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، براؤن نے انہیں ایک زبردست صحافی، صاحب قلم، عظیم مفکر، خطیب اور سیاست دان کے طور پر یاد کیا ہے، افغانی بڑے خود دار اور خود شناس شخص تھے، افغانستان، ایران، ترکی اور مصر کے حکام و سلاطین کے ساتھ ان کے برابر کے روابط تھے مگر یہ روابط ان کے اصلاحی مشن میں کبھی حائل نہ ہو سکے، انہوں نے کبھی کوئی تحفہ یا تمغہ قبول نہیں کیا، سلطان عبدالحمید کا عطا کردہ اعلیٰ تمغہ انہوں نے بلی کے گلے میں باندھ دیا تھا اور فرمایا: ’’یہ آدمیوں کی عزت و توقیر کی دلیل نہیں ہے ‘‘ ناصر الدین نے انہیں ایک انگشتری پہنائی تھی، افغانی نے اسے ایک شاہزادے کو پہنا کر حساب بے باک کر دیا، مصری، ایرانی، اور عثمانی حکومتوں سے انہیں جو وظیفہ ملتا تھا، اس کے معتدبہ حصے کو وہ محتاجوں پر صرف کر دیتے تھے، خود وہ عائلی بندشوں سے مدت العمر آزاد ہی رہے۔

تصانیف اور افکار

افغانی کے بارے میں اقبال نے بجا فرمایا ہے کہ انہوں نے لکھا کماور کہا بہت ہے، سید جمال الدین نے افغانوں کی ایک تاریخ فارسی میں لکھی تھی جس کا عربی (۴) اور اردو (۵) ترجمہ چھپ چکا ہے، ہندوستان کے قیام کے دوران میں آپ نے فارسی میں ایک مبسوط رسالہ ’’ردّ دہریان‘‘ لکھا تھا، شیخ محمد عبدہٗ، نے اسے ’’الرد علی الدھرئین‘‘ کے عنوان اور ایک مفصل مقدمے کے ساتھ عربی میں ترجمہ کر کے چھپوا دیا، افغانی نے اپنے اصلی اور بعض قلمی ناموں کے سیاحت افغانستان، مصر اور فرانس کے بعض روز ناموں میں کئی مقالے لکھے، کئی مشاہیر کے نام ان کے عربی اور فارسی میں خطوط بھی دستیاب ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے جو کچھ لکھا، وہ اخبار ’’قانون‘‘، ’’ضیاء الخافقین‘‘ اور ہفت روزہ ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کے چند شماروں کی زینت ہے اور بس، افغانی کا قول ہے ’’میں کتابیں نہیں لکھتا، زندہ کتابیں پیدا کرتا ہوں ‘‘۔

’’تاریخ افاغنہ‘‘ ایک مربوط اور محققانہ تالیف ہے، اگرچہ اس میں ضروری حوالے مفقود ہیں۔ ’’ردّ دہر یان‘‘ میں انہوں نے مذہب کی برتری کی خاطر وزنی دلائل دیئے ہیں۔ ان کی نظر میں عالم اسلام کے زوال و انحطاط کا مداواس میں نہیں کہ مسلمان تقلید مغرب، نیچر پرستی اور الحاد نما عقائد کو اپنائی بلکہ یہ کہ وہ رجوع الی القرآن کی راہ پر گامزن ہوں اور اپنی موجودہ تن آسانی اور غفلت شعاری کی روش کو بدل ڈالیں۔ ارشاد ربانی ہے :’’ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت نہیں بدلتا جب تک اس کے افراد اپنے نفوس میں تغیر نہ پیدا کر لیں ‘‘(۶)۔ اس رسالے میں انگریزی استعمار کے حامیوں اور اہل مغرب کی سروری کے گن گانے والوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ روزنامہ ’’ضیاء الخافقین ‘‘ کے چند شمارے ہی نکلے ان میں ناصر الدین قاچاری کی ہوس زر اور اس کی ملک فروشانہ سرگرمیوں کی قلعی کھولی گئی ہے۔ یہ اخبار ان بیسیوں دوسرے اخباروں کی اشاعت کا محرک و مشوق  بنا جو قاچاری  استبداد کے خلاف نکالے گئے اور جنہوں نے رائے عامہ کو اس طرح ہموار کیا کہ استبدادی سلطنت نے ’’مشروط‘‘ (آئینی حکومت کے حقوق) کو تسلیم کر لیا، چنانچہ اس کے کچھ عرصے بعد پہلو سلطنت کا دور شروع ہوا۔ ہفت روزہ ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ کی اشاعت کا مقصد البتہ وسیع تر اور عالمی تھا۔ یہ مجلہ مارچ سے اکتوبر 1884ء تک کچھ تعطل اور توقف کے ساتھ جاری ہوتا رہا اور اس کے کل اٹھارہ شمارے شائع ہوئے۔ ابتدائی شمارہ 15! جمادی الاول 1301 ہجری،13 مارچ 1884ء کو نکلا اور آخری 26 ذی الحجہ  1301 ہجری/ 16 اکتوبر 1884ء کو۔

’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کے مضامین سے ہم اس مجموعے کے ذریعے استفادہ کر رہے ہیں جسے 1328 ہجری میں حسین محی الدین جمال نے بیروت سے شائع کر دیا۔ مختلف سیاسی بیانات و مقالات کے علاوہ اس ہفت روزہ مجلہ میں کوئی ڈیڑھ درجن فکر انگیز مضامین چھپے  ہیں جو بظاہر شیخ محمد عبدہ کی تحریر اور جمال الدین کی فکر کا نتیجہ ہیں یہ ہم اس بنا پر کہتے ہیں کہ خود عبدہ مرحوم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا، ’’العروۃ الوثقیٰ میں جو مضامین اور بیانات چھپے، ان میں سے کسی میں بھی میری فکر یا سید جمال الدی کی تحریر نہیں ہے، البتہ اس کے حرف حرف پر ہم دونوں کو اتفاق تھا۔ ‘‘ ان مقالات کی تحریر عظیم اور فکر عظیم تر ہے۔ بیشتر مقالات کے عنوانات قرآن مجید کی آیات کریمہ ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے یہ مجلہ افغانی اور عبدہٗ کی مشترک ادارت میں نکلتا تھا اور دنیا بھر کے مسلمان زعما اور مختلف اداروں کو مفت بھیجا جاتا تھا۔ بعض مخیر مسلمانوں ( جن میں افغانی کے حیدرآباد دکن کے چند دوست بھی تھے ) نے اس کے اجرا کی خاطر رقم فراہم کر رکھی تھی۔ چند ماہ بعد مصری اور برطانوی حکومتوں کے دباؤ پر فرانسیسی حکومت نے اسے فرانس سے باہر بھیجا جانا ممنوع قرار دے دیا( ہندوستان میں اس کی خریداری کو جرم قرار دیا گیا)۔ افغانی اور عبدہ اسے لفافوں میں بند کر کے ترسیل فرماتے رہے مگر اس طرح اخراجات اتنے بڑھ گئے کہ چار و نا چار اسے بند ہی کرنا پڑا۔ ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ کی اہمیت کا اندازہ لگانے، افکار افغانی کی ایک جھلک دیکھنے نیز افغانی و اقبال کے فکری توافق و ہم آہنگی کو دیکھنے کی غرض سے ہم اس میں مندرج مقالات میں سے بعض کے اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش کرتے ہیں :

(1) زمین کا کوئی خطہ مسلمانوں کا مرزو بوم ہوا اور ان کی کوئی بھی قومیت ہو جب وہ اسلام پر ایمان لے آئے تو ایک بڑے اسلامی خانوادے کے فرد بن گئے۔ اب اگر کوئی عصبیت رکھتے ہوں تو وہ اسلام کی عصبیت ہونی چاہئے جس میں دیگر عصبیتیں مدغم و ضم ہو گئی ہیں۔ اسلام پر ایمان لانے والا جس قدر اپنے عقیدے میں پختہ ہوتا ہے اسی قدر وہ جنس،ذات، قبیلہ، نسل اور قومیت کے بندھنوں سے آزاد ہوتا ہے۔ ایمان بالغیب اور توحید کی نعمتوں سے مستفید ہو کر وہ محدود رابطوں کو توڑ کر ایک عالمگیر رابطۂ اخوت سے مستحکم ہو جاتا ہے۔۔۔ اس وقت اس عصبیت اور اس وحدت فکر و عمل کی ضرورت ہے۔ اے علمبرداران توحید ! دنیا کے گوشے گوشے سے اٹھو اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں عملاً شریک ہو جاؤ۔ ‘‘ (از: الجنسیۃ والدیانۃ الاسلامیۃ)

(2) آپ کا کیا خیال ہے کہ آج دوسری قوموں کی نقالی کرنے، اسلامی محکم عقائد کا ابطال کرنے، الحاد کو اپنانے اور دوسری قوموں سے گٹھ جوڑ رکھنے سے آپ بحیثیت مسلمان ترقی کر لیں گے ؟ دوسری قومیں شدید ترین مذہبی عصبیت کے ساتھ آپ کے استیصال و انحلال کے درپے ہیں اور آپ کو تلقین کر رہی ہیں کہ عصبیت چھوڑ دو۔ آپ غیرت دینی اور باہمی اخوت کے جذبات کو ابھاریں۔ اسلام کا ماضی تابناک ہوا تھا۔ اے بہادروں کی اولاد! خدا نے ایمان والوں کی فتح و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے، کیا آپ کی خاکستری میں غیرت و حمیت کی کوئی چنگاری باقی نہیں رہی؟ کیوں نہیں، ہاں ان چنگاریوں کو شعلہ ور کرنے کی ضر رت ہے۔۔۔ خدا پر ایمان کامل رکھ کر آپ اپنی قوتوں کو متحد کریں اور استعماریوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیں۔ ( از سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا (7))

(3) دین اسلام کی عبادات محض مراسم نہیں، یہ سیرت و کردار کی تشکیل کی خاطر ہیں تاکہ آدمی بڑی سے بڑی قربانی کی خاطر تیار ہو سکے۔ ان قربانیوں  کی انتہا شہادت ہے جس مرگ با شرف کہنا چاہئے۔۔۔ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان صرف خدا سے ڈریں، دنیا کی ہر قوت کے ساتھ ٹکر لینے کے لئے تیار ہوں اور موت کو خاطر میں نہ لائیں۔ آخر آج کے علمائے دین فروعی اور اختلافی مسائل سے ہٹ کر مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو کیوں بیدار نہیں کرتے؟ وہ جبن و خوف سے نجات پانے کا راستہ کیوں نہیں بناتے۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک کوئی قوم، انفرادی اور اجتماعی طور پر جدوجہد نہ کرے، خدا اس کی پست حالت کو بلندی نہیں ہو سکتا۔ ہماری تغافل شعاری کے نتیجے میں زوال و نکبت ہم پر مسلط کر دیئے گئے ہیں اور ہم اس حالتیں جادۂ اعتدال سے انحراف کی دلیلیں ہیں۔ د رد مندانِ قوم ! یاس و نا اُمیدی کی کوئی بات نہیں، ملت اسلامیہ کو احساس ندامت دلاؤ تاکہ سعی و عمل سے وہ پھر رحمت خداوندی کی سزاوار بن جائے۔ (از :ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیرو امابا نفسھم (8) )

(4) لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ مسلمانوں کے جمود و انحطاط کا کیا سبب ہے ؟ ایسے بہت سے اسباب بیان ہو سکتے ہیں مگر ہمارے نزدیک افتراق و پراگندگی اور دوسروں کے دکھوں کا عدم احساس غالباً سب سے بڑا عامل ہے جس کی وجہ سے مسلمان معاشرے کا اجتماعی ارتقا رکود و تعطل سے دوچار ہے۔۔۔ ان سالوں کی بات ہے کہ اہل بلوچستان گھروں میں بیٹھے رہے اور افغانوں کے خلاف انگریزوں کی کار روائی جاریرہی، ان کی رگ حمیت نہ پھڑکی کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کی حمایت میں ایک نعرہ بھی بلند کر لیتے۔ خود افغانوں کی بھی یہی حالت رہی ہے، وہ ایران میں انگریزوں کی سفاکیوں کا تماشا دیکھتے رہے اور مجھے تعجب ہوا کہ یہ لوگ کیوں بے تاب نہ ہوئے اور ان کا خون کیوں نہ کھولا؟ مصر میں کشتوں کے پشتے لگ گئے اور اخوت اسلامی کے دعویداروں نے غالباً آہ و فغاں بھی نہیں کیا ہے۔۔۔ تاریخ اسلام سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مٹھی بھر مسلمانوں نے کیا کیا کارنامے انجام دیئے ہیں۔ آج کروڑوں نظر آتے ہیں مگر عملی وحدت کے فقدان کی وجہ سے بے بس ہیں، یہ اتنے بے بس یں کہ اپنا دفاع کرے اور اپنے اوطان کو سیاسی آزادی دلانے پر بھی قادر نہیں۔ یہ عقیدے اور عمل میں تفاوت کا نتیجہ ہے۔ (از: واعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا۔۔۔ (9) )

آخر میں ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ سے ایک اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

:اے بہادروں کی اولاد! اے دلیروں کے اخلاف! اے جوانمردوں کی نسل! کیا زمانہ تم سے پھر گیا ہے ؟ کیا حالت سنبھالنے کا وقت بیت گیا ہے ؟ کیا نا امیدی کا وقت آ پہنچاہے ؟ ہر گز نہیں۔ خدا نہ کرے کہ زمانہ تم سے امید منقطع کر دے۔ ادر نہ سے لے کر پشاور تک اسلامی حکومتیں ہیں، قلمروئیں ملی ہیں، قرآن مجید نے ان کو ایک عقیدے پر متحد کر رکھا ہے، ان کی تعداد (پچاس) کروڑ سے کم نہیں ہو گی اور یہ شجاعت و بہادری میں ممتاز ہیں۔ کیا ان سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس طرح دوسری قوموں نے اتحاد کر رکھا ہے، یہ بھی متحد ہو جائیں ؟ اگر یہ اتفاق کر لیں تو ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے، اتفاق و اتحاد ان کے دین کی بنیاد ہے۔ کیا ان کو اتنا شعور نہیں کہ اس بات کا احساس کریں کہ ان میں سے ہر ایک کی احتیاجات دوسرے سے وابستہ ہیں ؟ کیا ان میں کوئی ایسا نہیں رہا جو خدا کے اس حکم کے مطابق کہ ’’مومن بھائی بھائی ہیں ‘‘ اپنے بھائی کا بھی خیال رکھے ؟ اگر یہ ایک محکم دیوار کی مانند کھڑے ہو جائیں تو ان سیلابوں کو روک دیں گے جو اس وقت ان پر ہر سمت سے عود کر آ رہے ہیں۔ ‘‘

افغانی کے حالات زندگی اور افکار کے بارے میں ہم اس مختصر خاکے پر اکتفا کریں گے مگر نامناسب ہو گا کہ آگے بڑھنے سے قبل ہم ضروری مآخذ کی فہرست یہیں درج نہ کر دیں :

(الف) مقام جمال الدین افغانی،حیدرآباد دکن۔ (ب) مقالات جمالیہ مرتبہ پروفیسر عبدالغفور  شہبازؔ، کلکتہ۔ (ج) جمال الدین افغانی،مطبوعہ جامعہ ملیہ،دہلی۔ (د) آثار جمال الدین مؤلفہ قاضی عبدالغفار، مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، دہلی(ھ) انقلاب ایران(انگریزی سے فارسی ترجمہ) از ای۔ جی۔ براؤن)۔ (و) مشاہیر الشرق از جرجی زیدان، قاہرہ،1905ء۔ (ز) تاریخ بیداری ایرانیاں از ناظم الاسلام کرمانی، تہران (ح) مجموعہ مقالات العروۃ الوثقیٰ،بیروت 1328 ہجری۔ (ط) شرح حال وآثار فیلسوف شرق سید جمال الدین اسدآبادی افغانی مؤلفہ میر زالطف اللہ خان اسد آبادی، تبریز،1324۔ (ی)سید جمال الدین افغانی مؤلفہ ضیاء الدین احمد برنی، (طبع ثانی) کراچی، 1954ء۔ (ک) زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث از احمدامین مرحوم، قاہرہ، 1948ء۔ (ل)جمال الدین الافغانی بقلم محمود ابوریہ، قاہرہ۔

افغانی اور اقبال

اتحاد عالم اسلامی کے سلسلے میں افغنی کی مساعی اور افکار کی ایک جھلک ہم نے پیش کر دی ہے، اقبال اور افغانی کے درمیان یہ ایک بہت بڑا مشترک عامل ہے۔ افغانی، شیخ محمد عبدہٗ اور سعید حلیم پاشا کے بعد غالباً ہی وہ عظیم مفکر ہیں جنہوں نے پین اسلامزم کی خاطر بے حد توانائی صرف کی ہے اور اس کے ذکر سے علامہ مرحوم کی کوئی ایک شعری یا نثری رہے اور اسلامی اجتہادی فکر ونظر کے سلسلے میں بھی دونوں کے افکار یکساں ہیں۔ غرض افغانی سے علامہ فکری اور عملی دونوں لحاظ سے بے حد متاثر ہوئے اور اس کی نمایاں ترکیفیت ’’جاوید نامہ‘‘ میں نظر آتی ہے۔ وھو ھذا: فلک قمر سے گزرنے کے بعد اقبال، مولانا جلال الدین رومی کی معیت میں فلک عطارد پر پہنچتے ہیں۔ یہاں انہیں آواز اذان سنائی دی، وہ آگے بڑھ کر کیا دیکھتے ہیں کہ جمال الدین افغانی امامت فرما رہے ہیں اور سعید حلیم پاشا تاتار اقتدار کر رہے ہیں۔ رومی نے فرمایا: عصر حاضر کے مشرق میں ان دو افراد سے بہتر لوگ عالم وجود میں نہیں آئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر جان کھپائی ہے  ؂

سید السادات مولانا جمال

زندہ از گفتارِ او سنگ و سفال

ترک سالار آں حلیم درد مند

فکرِ او مثلِ مقامِ او بلند

ترجمہ:

  ایک سیدالسادات جمال الدین جن کی گفتگو سے پتھر میں جان پڑ جائے،دوسرے تر کی نژاد،دردمند، ترک سالار (حلیم پاشا) جن کی فکر ان کے مقام کی طرح بلند ہے۔

رومی اور اقبال بھی شریک نماز ہو جاتے ہیں۔ افغانی سورہ ’’النجم‘‘ کی قرأت فرما رہے تھے اور ان کا سوز قرأت حد بیان سے باہر ہے۔ اقبال(زندہ رود) نماز کے بعد از راہ عقیدت افغانی کی دست بوسی کرتے ہیں اور افغانی ان سے عالم اسلام کے بارے میں پوچھتے ہیں  ؂

قرأت آں پیر مردے سخت کوش

سورۂ و النجم و آں دشتِ خموش!

دل از و در سینہ گردد ناصبور

شور الا اللہ خیزد از قبور!

من ز جابر خاستم بعد از نماز

دستِ او بوسیدم از راہِ نیاز

زندہ رود! از خاکدانِ مابگوے

از زمین و آسمانِ ما بگوے

خاکی و چوں قدسیاں روشن بصر!

از مسلماناں بدہ ما راخبر

ترجمہ:

اس دشت خموش میں اس عظیم انسان (افغانی) سورۂ والنجم کی تلاوت کر رہے تھے جن کی قرأت کے سوز سے دل تڑپ جایئے اور قبروں سے ’’الا اللہ‘‘ کا شور بلند ہو۔ میں نے نماز کے بعد ان کا ہاتھ کو عقیدت مندی سے بوسہ دیا۔ انہوں نے زندہ رود(اقبال) سے کہا کہ ہماری دھرتی کا کچھ پتہ بتا اور زمین و آسماں کا حال سنا۔ انسان خاکی تو ہے لیکن فرشتوں کی طرح روشن بھر ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں مجھے کچھ خبر دے۔

اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان اس وقت ضعف ایمان اور نا امیدی کا شکار ہیں۔ چند بڑے بڑے فتنے جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کر رکھا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں : افرنگ مآبی، ملوکیت کا استبداد اور اشتراکیت (جس کا تجربہ 1917ء سے روس میں شروع ہے )۔ افغانی فرماتے ہیں : اہل مغرب نے وطنیت کے نظریے کے ذریعے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کر رکھی ہے۔ خس و خاشاک بھی زمین گیر نہیں رہتا اور ہوا آنے پر پرواز کر جاتا ہے۔ کیا مسلمان اس سے بھی زیادہ گیا گزرا ہے کہ ایک خطۂ زمین ہی سے خود کو وابستہ کر لے ؟ آفتاب مشرق سے طلوع ہو کر ساری کائنات کو مستنیر کر دیتا ہے، اسے کوئی مشرق کیوں کہے گا؟ مومن کی بھی ایسی ہی آفاقی شان ہے کہ وہ ایک خطۂ خاک سے منسوب ہونے کے باوجود بھی کہتا ہے کہ ’’مومن کا جہاں ہر کہیں ہے ‘‘  ؂

تو اگر داری تمیز خوب وزشت

دل نہ بندی باکلوخ و سنگ و خشت

می نگنجد آں کہ گفت اللہ ھو

در حدودِ ایں نظارہ چار سو

ترجمہ:

تجھے اگر اچھے برے کی تمیز ہے تو اینٹ پتھر (یعنی زمین) سے دل نہ لگا۔ جس نے ’’اللہ ھو‘‘ کہا وہ نظامِ چار سو کے حدود میں گرفتار نہیں رہ سکتا۔

اشتراکیت و ملوکیت دونوں استبدادی نظام ہیں جو کہ باہمی انسانی ہمدردی اور احساس اخوت کے لئے زہر ہلال ہیں۔ روحانی اقداران نظامون سے فروغ نہیں پاتے  ؂

رنگ و بو از تن نگیرد جانِ پاک

جز بہ تن کارے ندارد اشتراک

ہم ملوکیت بدن را فربہی است

سینۂ بے نورِ او از دل تہی است!

ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب

ہر دویزداں ناشناس آدم فریب

زندگی ایں را خروج آں را خراج

درمیان ایں دو سنگ آدم زجاج

ترجمہ:

جانِ پاک تن سے رنگ و بو حاصل نہیں کر سکتی اور اشتراکیت کا واسطہ صرف تن سے ہے اسی طرح بدن کی فربہی ہے جس سے سیہ بے نور اور دل سے خالی ہے۔ دونوں کا حاصل بے چینی اور اضطراب ہے۔ دونوں حق نا شناس اور انسان کو فریب دینے والے ہیں۔ ایک زندگی کے لئے خروج (بغاوت) ہے اور دوسرے خراج (استحصال) ہے اور انسان ان دو پتھروں کے درمیان شیشے کے مانند ہے۔

یہاں سعید حلیم پاشا شرق و غرب کے معنوی فرق پر روشنی ڈالتے اور مسلمانوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ علامہ کا اشارہ پاشائے مرحوم کی کتاب ’’اسلام الشمق‘‘ اور ان کے واحد اصلاحی (۱۰) مقالے کی طرف ہے۔ علامہ نے اس کا خلاصہ پیش کر دیا ہے  ؂

بندۂ مومن ز آیاتِ خداست

ہر جہاں اندر برِ او چوں قباست!

چوں کہن گردد جہانے در برش

می دہد قرآں جہانے دیگرش!

ترجمہ:

مرد مومن آیات قراں کا امین ہے اور اس سے جسم پر ہر جہاں کی قبا چست ہوتی ہے۔ جب ایک جہاں (کا لباس) اس کے جسم پر پرانا ہو جاتا ہے تو قرآن اسے دوسرا جہاں عطا کرتا ہے۔ (یعنی زمانے کے تغیر کے باوجود اس کا وجود ایک نئے انداز سے باقی رہتا ہے )

اقبال فرماتے ہیں کہ ’’جہانِ قرآنی‘‘ سے عصر حاضر کے مسلمان واقف کہاں ہیں ؟ ورنہ وہ ایسا جہانِ رعنا ہے کہ اس کے چند ہی مناظر حضرت عمر فاروق ص میں مکمل تبدیلی لے آئے تھے، یہاں حضرت عمر ص کے اسلام لانے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے اپنی بہن سے سورہ ’’طہٰ‘‘ کی چند آیات سنیں اور اسلام لے آئے تھے، اس پر افغانی ’’جہان قرآنی‘‘ کے چہار گانہ محکمات پر روشنی ڈالتے ہیں : خلافت آدم، حکومت الہٰی، ارض ملک خداست اور حکمت خیر کثیر است، انسان کو خدا نے نیابت و خلافت کی جو اہلیت بخشی، وہ اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آنحضرت ا کی روش حقہ کی پیروی میں جلوت و خلوت کی زندگی میں ایسا تعادل و توازن رکھیں کہ وہ خَلعت خلافت کے سزاوار ہو سکیں اور شرف انسانیت کے بھی؂

حرف اِنّی جاعل تقدیرِ او

از زمیں تا آسماں تفسیرِ او

بر تر از گردوں مقامِ آدم است

اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

مصطفیٰ ا اندر حرا خلوت گزید

مدتے جز خویشتن کس را ندید

نقشِ مارا در دلِ اور ریختند

ملتے از خلوتش انگیختند

می توانی منکرِ یزداں شدن

منکر از شانِ نبی ا نتواں شدن

گرچہ داری جانِ روشن چوں کلیم

ہست افکار تو بے خلوت عقیم

از کم آمیزی تخیل زندہ تر

زندہ تر، جویندہ تر، یابندہ تر

صاحبِ تحقیق را جلوت عزیز

صاحبِ تخلیق را خلوت عزیز

آنچہ در آدم بگنجد عالم است

آنچہ در عالم نگنجد آدم است!

ترجمہ:

انسان کی تقدیر خلافت ہے اور ساری کائنات حرف ’’انّی جاعلٌ‘‘ کی تفسیر ہے، مقامِ آدم آسمانوں سے بلند تر اور تہذیب کی بنیاد احترام آدم ہے، مصطفی ا نے ایک مدت غارِ حرا میں گزاری اور خلوت میں غور و فکر میں مصروف رہے، قلت کا نقش اسی خلوت سے ظاہر ہوا، خدا کا انکار ممکن ہو سکتا ہے لیکن نبی ا کی شان کا انکار نہیں ہو سکتا، گو تو کلیم ں (موسی ں ) کی طرح روشن جان رکھتا ہے لیکن بغیر خلوت کے تیرے افکار بے ثمر ہیں، کم آمیزی (خلوت) سے تخیل زندہ ہوتا ہے۔

صاحبِ تحقیق کے لئے جلوت اور صاحبِ تخلیق کے خلوت عزیز ہوتی ہے،۔ عالم (آفاق)

آدم کے اندر سما سکتا ہے، لیکن آدم، عالم میں نہیں سما سکتا۔ (گم نہیں ہو سکتا)

’’حکومت الہٰی‘‘ کے بارے میں افغانی فرماتے ہیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون وحی منزّل کا مقابلہ کیسے کر سکے گا؟ مغربی ممالک میں رائج مختلف استبدادی نظاموں کے دساتیر کی قدر مشترک یہی ہے کہ قوی کو قوی تر اور کمزور کو کمزور تر بنا دیا جائے، حکومت الہٰی کا قانون البتہ ہر کہ ومہ کا مساویانہ خیال رکھتا ہے۔ ’’لایراعی لایخاف‘‘ اس کا طرۂ امتیاز ہے    ؂

عقلِ خود بیں غافل از بہبودِ غیر

سودِ خود بیند نہ بیند سودِ غیر

وحی حق بینندۂ سودِ ہمہ

در نگاہش سود وبہبود ہمہ

غیرِ حق چوں ناہی وآمر شود

زور ور بر ناتواں قاہر شود

حاصلِ آئین ودستورِ ملوک!

دہ خدایاں فربہ ودہقاں چو دوک!

وائے بر دستورِ جمہور فرنگ

مردہ ترشد مردہ از صورِ فرنگ!

ترجمہ:

خود بین عقل دوسروں کی بہبود سے غافل رہتی ہے، وہ صرف اپنا ہی فائدہ دیکھتی ہے اور دوسروں کے فائدے سے بے نیاز ہوتی ہے، لیکن وحئی حق کی نظر میں ساری خلق خدا کی بہبود رہتی ہے، جب غیر حق کو اقتدار اور قوت حاصل ہو جائے تو طاقتور کمزور کے کئے قاہر (ظلم کرنے والا) بن جاتا ہے، ملوک (آمروں ) کا آئین و دستور زمیندار کو طاقتور اور دہقان (کسان) کو مزور بنا دیتا ہے، جمہورِ فرنگ کے دستور پر افسوس کہ اس کے صور سے مردہ، مردہ تر بن جاتا ہے۔

’’ارض ملک خداست‘‘ میں ’’ارض‘‘ کا لفظ وسیع تر معاشی اور معاشرتی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، ’’الارض للہ‘‘ کے عنوان سے ’’بال جبریل‘‘ میں بھی اقبال نے اس کی روشنی میں ایک قطعہ لکھا ہے، ماحصل یہ ہے کہ مضاربت کرنے والوں کو زمین کے جملہ حقوق اور اس سے استفادہ ملے، زمین کے تمام وسائل انسانوں کا وسیلہ زیست (متاع) ہیں جس سے وہ کھانے اور مرنے کے بعد عام صورت میں اس کے کسی گوشہ میں دفن ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی استفادہ کی ہوس اور زمین کو اپنی ملکیت میں لینے کے جھمیلے وجود انسانیت کا ناسور ہیں، ا تنازعوں میں اگر توانائی صرف نہ کی جائے تو کتنے ہی دیگر مفید کام انجام پا سکتے ہیں   ؂

حق زمیں را جز متاعِ مانگفت

ایں متاعِ بے بہا مفت است مفت

وہ خدایا! نکتہ از من پزیر

رزق وگور از وے بگیراور ا مگیر

باطن الارض للہ ظاہر است

ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است

از طریقِ آزری بیگانہ باش

بر مرادِ خود جہان تو تراش

مردنِ بے برگ وبے گور وکفن؟

گم شدن در نقرہ وفرزند وزن!

ترجمہ:

حق تعالیٰ نے زمین کو آدم کی متاع قرار دیا ہے اور یہ متاعِ بے بہا اسے مفت حاصل ہوئی ہے، زمین سے تو اپنے لئے رزق اور قبر کی جگہ لے سکتا ہے لیکن اس پر تیرا حق نہیں، ’’زمین اللہ کی ہے ‘‘ کا نکتہ ظاہر ہے اور جس کی اس ظاہر پر نظر نہیں ہے وہ کفر میں مبتلا ہے، طریقِ آزری ترک کرے اور اپنے لئے ایک نیا جہاں تراش، مال، زن وفرزند کے چکر میں پھنس جانا، بے سرو ساماں اور بے گور وکفن موت کے مانند ہے۔

’’حکمت خیر کثیر است‘‘ در اصل رسالہ ’’ردّ دہریان‘‘ سے ماخوذ ومقتبس ہے، افغانی دیگر مصلحین اخلاق کی مانند ہمیشہ تلقین فرماتے رہے کہ علم وہی ہے جو عمل کے ساتھ توام ہو، جو زندگی کو سوز و ساز اور جنبش و تحریک دے، مسلمانوں نے ایک زمانے میں علوم و فنون کی برکت سے اخلاق و شرافت کو پھیلایا، اہل یورپ بھی علوم سے بہر ہ مند ہوئے مگر انسانی سوز و ہمدردی کے فقدان کی بنا پر وہ مخرب اخلاق مدنیت پھیلاتے اور مہلک ہتھیاروں کے ذریعے بنی نوع انسان کو راہ ہلاکت پر چلاتے رہتے ہیں، اس قسم کے خیالات کا خاکہ ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ کے ایک اور مضمون میں بھی ملتا ہے جس کا عنوان ہے : ’’وذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین‘‘ اور اس بحث کو اقبال نے مثنوی ’’پس چہ باید کر د‘‘ میں زیادہ شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں   ؂

علم حرف و صوت را شہپر دہد

پاکی گوہر بہ نا گوہر دہد

دل اگر بندد بہ حق، پیغمبری است

ور زحق بیگانہ گر دو کافری است!

علم را بے سوزِ دل خوانی شراست

نورِ او تاریکئی بحر وبراست

سینۂ افرنگ را نارے ازوست

لذت شنجون ویلغارے ازوست

سیرِ واژونے دہد ایام را

می برد سرمایۂ اقوام را!

ترجمہ:

علم، حرف و گفتار کو پرواز اور موتی کی چمک اور پاکی عطا کرتا ہے، علم کا رشتہ اگر حق سے استوار ہو تو وہ پیغمبری ہے اور اگر حق سے بیگانہ ہو جائے تو وہ کافری ہے، اگر سوزِ دل نہ ہو تو علم شر ہے اور اس کا نور، نور نہیں بلکہ بحر و بر کی تاریکی ہے، افرنگ کے سیہ میں آگ (اسی بے سوز علم کی وجہ) سے ہے، شبخون اور یلغار میں لذت اسی کی وجہ سے ہے، وہ وقت کو پیچھے کی طرف موڑ دیتا ہے اور قوموں کا سرمایہ تباہ کر دیتا ہے۔

افغانی نے جہانِ قرآن کے محکمات و مسلمات بیان کیے تو اقبال نے استفسار کیا کہ مسلمانوں کے موجودہ جمو دور کود کا کیا سبب ہے ؟ ایسی زندہ کتاب (قرآن مجید) کی حامل قوم خود کیوں مردہ ہو رہی ہے ؟ اس بات کا جواب سعید حلیم پاشا دیتے ہیں کہ جاہل مذہبی پیشواؤں کی کافر گری، تعلیم یافتہ اور با استبداد افراد کی افرنگ مآبی اور دین سے بے رغبتی کی بنا پر مسلمان جہانِ قرآن کی برکات سے محروم ہیں، اس کے بعد افغانی خطاب بہ اقبال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر عصر کی کامل رہنمائی موجود ہے مگر اس کی خاطر اجتہادی نقطۂ نگاہ پیدا کرنے اور آیات قرآنی کی ندرت و جدت پر غور و فکر کی ضرورت ہے   ؂

از حدیثِ مصطفی ا داری نصیب؟

دین حق اندر جہاں آمد غریب

بہر آں مردے کہ صاحب جستجو است

غربتِ دیں ندرتِ آیاتِ اوست

غربتِ دیں ہر زماں نوعِ دگر

نکتہ را در یاب اگر داری نظر

دل بآیاتِ مبیں دیگر بہ بند

تابگیری عصرِ نو را در کمند!

ترجمہ:

اگر اس حدیثِ مصطفی ا سے تجھے آگہی ہے کہ دین (اسلام) دنیا میں غربت کی حالت میں آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے لئے جو صاحبِ جستجو ہے، غربتِ دیں اس کی آیات کی قدرت کا نام ہے، اس قدرتِ دیں کی ہر زمانہ میں ایک نئی شان ہوتی ہے،اگر تو نظر رکھتا ہے تو اس نکتہ کو سمجھ لے، اس کی روشن آیات کو دل نشین کر لے تاکہ تو اپنے زمانہ پر کمند ڈال سکے۔

افغانی، اقبال سے فرماتے ہیں کہ اسرار قرآن مجید نہ جاننے کی بنا پر انسانیت نت نئے نظام قائم کرتی اور اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی ہے مثلاً حال ہی میں اہل روس نے اشتراکیت کے نام سے ایک نقشِ نو بنایا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس ملت کو میرا ایک پیغام پہنچا دو، افغانی نے ملت روسیہ کو جو پیغام دیا اس کا ماحصل یہ ہے کہ: مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے یقیناً گلو خلاصی حاصل کی جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اشتراکیت جیسے بے بنیاد اور نا پائیدار نظام کو قائم کیا جائے جس نے ’’لا‘‘ پر تکیہ کر رکھا اور ’’اِلّا‘‘ کا منکر ہے، کائنات نفی کے ساتھ اثبات (لا الہ الا اللہ) کی حقیقت پر قائم ہے، رہی انسانی مساوات اور سب کو معاشی سہولتوں سے بہرہ مند کرنے کی بات تو اسے دین اسلام کے علاوہ کس نظام نے پیش کیا یا کر سکے گا؟ قرآن مجید اور سنت رسول کی رو سے تاریخ اسلام کے زرین دور میں جو معاشی نظام قائم ہوا، اس میں کبھی کسی کا استحصال نہیں ہوا مگر افسوس کہ خود مسلمان اس نظام کی برکات سے دوسروں کو مستفید کر دے، بہر حال ملت روسیہ کے لیے لمحۂ فکر یہ ہے کہ اسلامی معاشی نظام کا غائر مطالعہ کر کے اور ’’لا‘‘ (نفی) سے گزر کر ’’اِلّا‘‘ (اثبات) کی منزل کی طرف پیش قدمی کریں (ان باتوں کو اقبال نے مثنوی ’’پس چہ باید کر د‘‘ میں دوبارہ اور بانداز دیگر بیان فرمایا ہے، متعلقہ صفحات ملاحظہ ہوں )، پیغام افغانی کے چند اشعار درج ذیل ہیں   ؂

اے کہ می خواہی نظامِ عالمے

جستۂاور ا اساسِ محکمے ؟

داستانِ کہنہ شستی باب باب

فکر را روشن کن از اُمّ الکتاب

چیست قرآں ؟ خواجہ را پیغامِ مرگ

دستگیرِ بندۂ بے سازو برگ!

نقشِ قرآں تا دریں عالم نشست

نقشہائے کاہن وپایا شکست

بامسلماں گفت جاں برکف بنہ

ہرچہ از حاجت فزوں داری بدہ

آفریدی شرع وآئینے دگر

اند کے بانورِ قرآنش نگر

محفلِ ما بے مے وبے ساقی است

سازِ قرآں را نواہا باقی است

حق اگر از پیشِ ما برداردش

پیشِ قومے دیگرے بگزاردش

از مسلماں دیدہ ام تقلید وظن

ہر زماں جانم بلرزد در بدن!

تر سم از روزے کہ محرومش کنند

آتش خود بر دلِ دیگر زنند!

ترجمہ:

اگر تمہیں ایک نئے نظام کی تلاش ہے تو  کیا تم نے اس کی مضبوط بنیاد کی جستجو کی ہے ؟ تم نے ماضی کی داستان کے ہر ورق کو دھو ڈالا ہے، اب اپنی فکر کو ام الکتاب (قرآن) سے روشن کرو۔ قرآن کیا ہے ؟ حاکموں ار سرمایہ دارو۲ں کے لئے موت کا پیغام ! اور بے سرو سامان بندوں کا دستگیر! اس نقشِ قرآنی نے دنیا سے کہانت اور پاپائیت کے نقوش کو مٹا دیا۔ مسلمانوں سے کہا پنی جان ہتھیلی پر لئے رہو اور جو بھی تمہارے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے دوسروں کو دے دو۔ تم نے (دنیا کو) ایک نئی شرع اور آئین عطا کیا۔ ذرا اسے نور قرآن کی روشنی میں دیکھو۔ اب ہماری محفل میں نہ مئے باقی ہے اور نہ ساقی ہے لیکن ساز قرآن کی نوا باقی ہے۔ اگر (یہ امانت ) ہم سے چھین لی جائے تو دوسری قوم کے سپرد کی جائے گی (کیونکہ ذکرِ حق امتوں سے بے نیاز ہے۔ یہ اسی کا حق ہے جو اس کا اہل ہے )۔ جب میں مسلمان کو دیکھتا ہوں کہ وہ بندۂ تقلید وطن بنا ہوا ہے تو ہر وقت میری جان بدن میں لرزتی رہتی ہے۔ مجھے یہ ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس شعلہ سے محروم نہ ہو جائے اور یہ آگ کسی دوسرے مقسوم نہ بن جائے۔‘‘

ملت روسیہ کو اقبال نے افغانی کی زبانی پیغام کیوں یا ہے ؟ اس کی متعدد توجیہیں کی جا سکتی ہیں۔ افغانی نے تین بار روس کا سفر کیا اور قفقاز نیز ماسکو میں طویل مدت تک قیام کیا، ان ہی کی مساعی سے قرآن مجید کا روسی ترجمہ اور متعدد دینی کتابیں وہاں طبع ہو سکی ہیں۔ اس طرح افغانی وہاں قرآنی پیغام پہنچا چکے تھے۔ وہ روسی زبان سے کس قدر آشنا(۱۱) اور اس ملت کی فعالیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اپنے ایک مقالہ ’’واطیعواللہ ورسولہ ولاتنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم ‘ ‘ مطبوعہ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘میں افغانی نے روسیوں کی مدافعانہ سرگرمیوں، مستقل مزاجی اور باہمی اتحاد کی اپنی مدافعت کر سکیں، وہ عصری تقاضوں کا خیال رکھیں اور کامل اتفاق رائے اور مستقل مزاجی ے کام لیں۔ تیسرے یہ کہ وہ دوسرے اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے افکار و آراء سے واقف ہوں اور ملت اسلامیہ پروار د ہونے والے تمام خطرات و حوادث کا متحداً مقابلہ کریں۔ ‘‘

سطور گذشتہ کی روشنی میں اقبال شناسی کی خاطر مطالعہ افغانی کی اہمیت واضح ہے۔ علامہ نے افغانی کے افکار سے بھر پور استفادہ فرمایا اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ مطالعہ اقبال کے لئے جمال الدین افغانی کی حیات و نگارشات کو سامنے رکھنے کی ضرورت محسوس کی جائے۔

(در: اقبال (لاہور) جلد 19 شمارہ 2 (اکتوبر۔ دسمبر 1971ء)،ص 38-40 )


حواشی :

1۔ Speeches and Statements of Iqbal مرتبہ Shamloo، ص164۔

2۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘،اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، 1958ء، ص 152۔

3۔ ’’حرف اقبال‘‘ مرتبہ لطیف اللہ شروانی، لہ آباد، 1934ء۔

4۔ ’’تتمتہ البیان فی تاریخ الافغان ‘‘، مطبوعہ قاہرہ، 1900ء۔

5۔ مترجمہ محمود علی خان ابوالمحاسن، مطبوعہ لاہور، سن ندارد۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول