صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


’اِک شاخ اب بھی سبز ہے پت جھڑ کے باغ میں ‘ ۔۔۔ عادل منصوری

ڈاکٹر محمد منصور عالم

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                           تمہید (اقتباس)

    جب ہم کوئی ایسا مجموعہ کلام پڑھتے ہیں ، جس میں نظمیں اور غزلیں دونوں ہوں تو غزلیں عموماً زیادہ کھینچتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ غزل پسندی کا مزاج ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصرعوں کی ہم وزنی میں نسبتاً زیادہ لطف ملتا ہے اور پھر قوافی بھی متاثر کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ باتیں ہیں تو نظموں سے بے رغبتی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اوزان اور قوافی ان میں بھی ہوتے ہیں۔ البتہ مسئلہ ان کے نمایاں اور پنہاں ہونے کا ہے۔ تو، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ شعری ہنر مندی میں پنہانی بہتر ہوتی ہے۔ پھر اپنے مزاج کو بھی مانوس کر نا چاہئے۔ شعری بیانیہ قائم کر نے میں جس طرح پہلے کے شعر اوزان و قافیہ اور تشبیہ و استعارہ کے پابند تھے۔ اس طرح کی پابندی جدید شعرا کے یہاں نہیں ہے۔ انہوں نے وزن و قافیہ کو سطروں میں چھپا دیا ہے اور پیکر سازی پر زیادہ تو جہ صرف کی ہے۔ پیکروں کا تقاضا ہو تا ہے کہ باتیں اپنے نقوش میں دو مصرعوں سے آگے بڑھیں۔ اور مصرعوں کی ہم وزنی کا طلسم ٹوٹے، پیکر پر مستز اد علامت ہے۔ علامت تلازموں کے ساتھ پھیلنے پر مصر ہوتی ہے۔ یہ دونوں ، پیکر اور علامت تفصیلی سریت کی فضا قائم کرتے ہیں اور ایک بیت میں سما نہیں سکتے۔ اس لئے نظم کی ہئیت نا گزیر ہو جاتی ہے۔ جس مجموعے میں صرف نظمیں ہوں یا نظمیں بالکل نہ ہوں۔ غزلیں ہی غزلیں ہوں ، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایسے گھر میں چلے آئے جہاں صرف سرہجیں ہیں یا صرف سالیاں ہیں۔ ہمارے لئے اہل خانہ کا مزید تصور ضروری نہیں کہ اس گھر میں مرد صورت میں کوئی ہے یا نہیں۔ کیونکہ شاعری کا مطالعہ بنیادی طور پر عورت کا مطالعہ ہے۔ عورت اس لئے کہ وہ فنکارانہ خلاقی اور فکری پیچیدگی کی شاہکار ہے۔ بزرگوں نے غزل کو گفتگو باز نان کر دن بتا یا تھا۔ لیکن یہ معنی صرف غزل تک محدود ہیں اور غزل کی نسبت سے بات معشوقہ تک ہی جا سکتی ہے۔ اس میں کنواروں کے لئے ایک رعایت ضرور ہے مگر یہ کوئی جامع معنی معلوم نہیں ہوتے۔ غزلوں کو میں سر ہجوں سے گفتگو سمجھتا ہوں۔ ان کے شوہر ان کے قافیے ہیں اور ردیف خشدامن، وہ خود کئی خاندانوں سے آئی ہیں۔ ان کا اپنا الگ وجود ہے۔ اس لئے وہ غزل کے شعر ہیں۔ جبکہ نظم سر ہج کی نسبت سے بالغ سالی یا بھابھی کی نسبت سے اس کی نند ہے۔ سر ہجیں اور بھابھیاں سمٹ کر ایک خاندان میں آ جاتی ہیں۔ سالیاں یا نند یں پھیل کر نئے خاندانوں کا پتا دیتی ہیں۔ غزل اور نظم کی ان دو نمائندہ ہستیوں کے دو ’’مقامات ‘‘ ہیں۔ ان دونوں سے آشنا اور وابستہ شاعر کسی یک فنے سے غالباً بڑا شاعر ہو نے کا حق رکھتا ہے۔

    فرید محمد عادل منصوری ۱۸؍ مئی ۱۹۳۶ء کو احمد آباد گجرات میں پیدا ہوئے تھے اور زندگی کی بہتر بہاریں دیکھ کر ۶ ؍ نومبر ۲۰۰۸ء کو امریکہ میں دُنیا سے پنہاں ہو گئے۔ میں نے ان کو کبھی نہ دیکھا لیکن ان کی جو تصویر’’ حشر کی صبح درخشاں ہو۔۔۔۔۔ ‘ ‘ کی پشت پر موجود ہے۔ اس میں وہ بڑے خوش مزاج نظر آتے ہیں۔ میں نے بھی کچھ اسی وجہ سے چہل بازی کی ہے۔ بولنے پر آمادہ ان کا مسکرا تا چہرہ اور ہاتھ کا اشارہ دونوں غماز ہیں کہ عادل فقرہ باز ضرور ہوں گے۔ فقرہ با زی اور سخن سازی ذوصوی القربی ٰ ہیں جو لوگ فقرہ با ز ہو تے ہیں۔ اگر وہ موزوں طبع بھی ہوں تو ان کی قوت متخیلہ مصرع تراشی میں وہ کام کرتی ہے،جس سے ذہنی کا وشوں کا بہترین تخلیقی اظہار ہو سکتا ہے۔ عادل کے مذکورہ بالا مجموعۂ کلام میں نظمیں اور غزلیں دونوں ہیں۔ یعنی گھر بھرا ہوا ہے اور یہاں نندوں بھابھیوں کا تیور اور تناؤ بھی موجود ہے۔ لیکن پہلے مصرعۂ تراشی کی دو ایک مثالیں دیکھئے۔

عادل کہتے ہیں   ؎

    کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو     

    کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتا ب کے

    شعر عام فہم ہے۔ مگر مصرعہ دو م جڑا ہوا نگینہ معلوم ہوتا ہے۔ ’’پرانی کتاب ‘‘ شخصیت کا استعارہ ہے ’’کتا ب  کی مناسبت سے ’’کاغذ‘‘ استعار ے کو آگے بڑھا تا ہے۔ بڑھا کر علامت میں ڈھال دیتا ہے اور فعل ’’بکھر رہے ہیں ‘‘ سے متحرک پیر بنا لیتا ہے۔ ہم پرانی کتا ب کے بکھرتے ہوئے اوراق کو چشم تصور سے دیکھ سکتے ہیں کہ عمر ضعیفی میں قویٰ کس طرح مضمحل ہو جاتے ہیں۔ اضمحلال قوی ٰ کو بکھرنے سے استعارہ کر نا بالکل مغائر تی صورت ہے اور لطف یہ کہ اس بکھرتی صورت پر حسرت نہیں۔ بالکل لا اُبالے فقرے باز ہی کا اندازہ ہے۔

یہ شعر دیکھئے

    خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر

    اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی

    اب اس کو فقرہ با زی کے سوا کیا کہا جائے گا کہ کسی نے مصرعہ اولیٰ، دو ست نے سنا تو از راہ تفنن مصرعۂ  تر لگا دیا۔ جوانی کی امنگوں اور بڑھاپے کی خشکیوں کی کشا کش سے لبریز کیا خوب مصرعہ تراشا ! مگر مصرعۂ اول کی تازگی بھی بے نظیر ہے۔ ایسا تخئیل کہ خواہش کو دوپہر میں کوٹھے پر سکھانے کو رکھا گیا تھا۔ ہمارے زمانے میں مضمون تا زہ کی بہترین مثال ہے۔ اب اس خواہش کو کھوجئے، کدھر گئی۔ ارے وہ تو سوکھ کر اڑ گئی! یا کوئی شوخ ہوا آئی اور اُڑا لے گئی،یا یہ خود ہی اس کے پیچھے ہو لی ؟( ’’گئی‘‘ کی جگہ پر ’’ اڑی‘‘ ہو تا تو بہتر ہو تا ؟) بڑھاپے میں جوانی کی کون سی خواہش ؟اور ’’سکھانے‘‘ سے کیا مرا د ہے۔ ، آسودگی، تسکین یا نفس کشی ؟۔

ایک اور شعر دیکھئے

    آنکھوں میں آنسوؤں کا کہیں نام تک نہیں

    اب جوتے صاف کیجئے ان کے رومال سے

    بظاہر معشوق ستمگر، بے وفا، سخت دل ہے، ذرا پشیمانی نہیں۔ ذرا ترس نہیں ، عاشق کی مصیبت پر کبھی آبدیدہ نہیں۔ پھر وہ رومال کا ہے کو رکھتا ہے۔ فقرہ کس دیتے ہیں کہ اب جوتے صاف کیجئے ان کے رومال سے۔ سوال یہ ہے کہ کس کے جوتے ؟ جواب بظاہر یہ ہے کہ اپنے جوتے، مگر معشوق اپنا رومال عاشق کو کیوں دینے لگا، لہذا اس کے رومال سے اس کے آنسو نہیں تو اس کے جوتے ہی پونچھئے۔ یعنی اس کی خدمت بہر حال کیجئے۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خود عاشق نے اپنا جو رومال معشوق کو تحفتاً پیش کیا تھا تاکہ بوقت رحم و رقت اپنے آنسو پونچھ سکے۔ تو اب تو اس کی آنکھیں کبھی آبدیدہ ہوتیں ہی نہیں۔ اس لئے اپنے عاشق کے رومال سے اپنے جوتے ہی صاف کیجئے۔ اس کے دیئے ہوئے تحفے سے کچھ تو کام لیجئے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر، معاشرے میں شبابی محبت کی روایت یہ رہی ہے کہ معشوق ہی عاشق کو رومال پیش کر تا ہے۔ یہ روایت اب جدید عشقیہ تہذیب میں ٹوٹ گئی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب غم فراق میں آنسو نہیں بہائے جاتے۔ لہذا نئی روایت قائم کی جائے کہ جس کسی کے پاس جس کسی کا دیا ہوا رومال ہو۔ اس سے وہ جوتے صاف کر ے کیونکہ اب رومال کا اور کوئی کام نہیں رہا۔ نہ آنکھ میں آنسو، نہ جبیں پر پسینہ

    مجھے احساس ہے کہ فقرہ بازی پر زور دے کر شاعری کی قدر پہچانی نہیں جا سکتی۔ لیکن فقرہ با زی میں جو شاعری ہو جاتی ہے اس کو پہچاننا بھی ضروری ہے۔ عادل کا امتیاز یہی ہے کہ وہ فقرہ با زی میں ہماری سفاک تہذیب کی عکاسی کر گزرتے ہیں۔

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول