صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ادھوری کہانی
اور دوسری کہانیاں
نجمہ ثاقب
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
گیارہواں کمّی (اقتباس)
وسط پوس(پوہ) کی رات کا آخری کنارہ ٹوٹ رہا تھا جب مولوی حسن دین پکی گلی کے کھجور والے سرے سے نمودار ہوئے۔ اس رات تاریکی حد سے بڑھی ہوئی تھی اور سرد ہوا جسم کو بَرمے کی طرح کاٹتی تھی۔
یہ اُن کا معمول تھا۔ وہ فجر سے بہت پہلے مسجد آ جاتے۔ تہجد کی نماز ادا کر چکنے کے بعد ذکر اذکار کرتے اور جب کھُلے پیٹوں والی چاٹیوں میں رنگ برنگی دودھ بلونیاں تھرکنے لگتیں اور سوتی جاگتی گلیوں کے پامال سینوں پر بیلوں کے قدموں کی دھمک اُن کے گلوں میں بجتی ٹلیوں سے ہم آہنگ ہونے لگتیں تو مولوی حسن دین کی گونجیلی اذان مسجد کے مناروں سے نکل کر فضا میں تیرتی پورے گاؤں پر تنبو سا تان لیتی۔
مولوی حسن دین کے والد مولوی چراغ دین کب اس گاؤں میں آئے تھے، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا تو مشکل ہے۔ ’’اماں کالعہ‘‘ چودھری عطاء محمد کی والدہ کے مطابق اس سال دریائے چناب میں زبردست ’’کانگ‘‘ آئی تھی جس نے چناب کنارے کے ’’بیلے‘‘ اور ’’ترائی‘‘ کے گاؤں اکھاڑ پچھاڑ کے دریا میں ڈال دیے تھے۔ تب مولوی چراغ دین اور اُن کا خاندان اپنے جیسے لٹے پٹے لوگوں کے ساتھ چندکوس کے فاصلے پر چیلیانوالہ سے باہر ٹھیک اس اونچے ٹیکرے پر آ کے ٹھہرا تھا
جہاں انگریز بہادر اور سکھوں کے درمیان وہ تاریخی لڑائی ہوئی تھی جسے دیکھنے کے لیے چودھری عطاء محمد کے والد اور چچا گھوڑوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار ہو کے بھاگے تھے جہاں انگریزوں نے وہ یادگاری منارے تعمیر کیے تھے جنھیں دیکھنے کے لیے آج بھی لمبوترے چہروں والے پھیکے انگریز اور موسلی کے دستوں جیسی کَسی ننگی ٹانگوں والی میمیں آتی تھیں۔
خود مولوی حسن دین نے اپنے والد سے یہ سنا تھا کہ دریا پار بیلوں میں ان کا آبائی گھر اور اونچے مناروں والی وہ مسجد تھی جسے ان کے دادا مولوی الہ بخش نے آباد کیا تھا۔ جس کی دیواروں کے کچے کنگرے ہمیشہ سفید چونے سے لپے رہتے تھے اور جس کے اکیلے کمرے کی کھردری چٹائیاں کبھی سجدوں سے خالی نہیں ہوئی تھیں۔ اس بحث سے قطع نظر یہ تھا کہ گاؤں کے مشرقی سرے پر دور دور تک پھیلے مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں وسیع کھیتوں میں گنے، مکئی اور کپاس کی ہری بھری فصلوں، اُن کے اطراف میں وہاں بکھرے کسانوں، ادھر ادھر بندھے اور چَرتے ڈنگروں سے لے کر، چلت پھرت سے بھری راہوں، ان کے کنارے کیکر کی ٹنڈ منڈ جھاڑیوں اور چودھری عطاء محمد کی حویلی کے وسط میں ۱۰۰؍ سالہ بوڑھے ’’برگد‘‘ کی گھنیری شاخوں تک سب اُن کی اذانوں کے اس طرح عادی ہو گئے تھے کہ اگر انھیں منظر سے نکال دیا جائے تو سارے منظر یکبارگی بکھر جائیں۔
مولوی صاحب مسجد کے دروازے پر پہنچے۔ اندھیرے میں ٹٹول کر کنڈی گرائی اور لالٹین کو ہاتھ میں اونچا کرتے نماز گاہ میں داخل ہوئے۔ وضو وہ گھر سے کر کے آتے تھے اور ان کا ارادہ ۲؍ رکعت نفل ادا کرنے کا تھا۔ مصلے کی جانب قدم بڑھاتے وہ یکدم ٹھٹھک گئے۔ نماز گاہ کے کونے میں مدھم ٹمٹماتے اجالے کی پرچھائیوں میں اُبھرتی ڈوبتی انسانی شبیہ ان کی نظر کا دھوکا ہرگز نہ تھی۔ ہو سکتا ہے کوئی مسافر ہو مگر رات تک تو یہاں کوئی نہ تھا۔ بڑی مدھم خود کلامی کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر انھوں نے لالٹین کی لو اونچی کی۔ سردی کی شدت اس کے شیشوں سے دھند کے بادل بن کر لپٹ رہی تھی۔
٭٭٭