صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


آدھی رات کا سورج 

زیف سید


ڈاؤن لوڈ کریں 


   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اے حرمِ قرطبہ


میں گیارہ مئی 2008ء کی ایک چمکیلی سہ پہر عبدالرحمٰن کی سنہ 786ء میں تعمیر کردہ مسجدِ قرطبہ کے احاطے میں کھڑا تھا جو دنیا بھر میں اسلامی طرزِ تعمیر کے اعلیٰ ترین شاہ کاروں میں سے ایک ہے۔ میرے اور حرمِ قرطبہ کے درمیان صرف ایک دیوار کی دوری حائل تھی۔اس وقت دل کی کیفیت کچھ عجیب سی تھی، اعصاب پر سنسنی سی چھائی ہوئی تھی، ہاتھ پاؤں پھولے جاتے تھے۔
میرے ذہن میں ایک دھندلی سی شبیہ تو ضرور موجود تھی۔ میں نے علامہ اقبال کی مسجد کے اندر مصلا بچھا کر نماز پڑھتے ہوئے دھندلی سی تصویر بھی دیکھ رکھی تھی، مستنصر حسین تارڑ کے بیان کردہ واقعات بھی نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے ، لیکن میں ٹھیک ٹھیک نہیں جانتا تھا کہ اس بھاری بھوری دیوار کے پیچھے کیسا منظر میرا استقبال کرے گا۔
لیکن ہم شاید وقت سے تھوڑا پہلے قرطبہ پہنچ گئے ہیں۔ میں یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ میڈرڈ سے یہاں تک پہنچا کیسے۔
میڈرڈ سے قرطبہ کاچار سو کلومیٹر کا سفر صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا۔ گذشتہ رات میں اپنا پرانا ہوٹل چھوڑ کر ہوٹل فلوریدا نورتے میں منتقل ہو چکا تھا، جو کہ نسبتاً بہتر ہوٹل تھا۔
ٹور بس اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوئی۔ ٹور گائیڈ صاحب کا نامِ نامی ڈان ہوان تھا۔ یہ انگریزی تو بول لیتے تھے ، لیکن ایک طرف تو محاور ے میں لغزش  کر جاتے تھے تو دوسری طرف تلفظ کے بھی کچھ مسائل تھے۔ مثال کے طور پر یہ جہاں انگریزی کا حرف H آتا، یہ اسے خ کی طرح بولتے تھے ، مثلاً ہوٹل کو خوتل اور ہاؤس کو خاؤس کہتے تھے۔
انگریزی کا مسئلہ پورے سپین میں آڑے آتا رہا۔ سوائے میڈرڈ میں ایک خاتون فارماسسٹ کے ، میں نے پورے ملک میں کسی کو گزارے کے قابل انگریزی بھی بولتے ہوئے نہیں پایا۔ کہتے ہیں کہ شاید غیور قوموں کی یہی نشانی ہے۔
دوسری خوبی ڈان ہوان صاحب میں یہ تھی کہ بہت بولتے تھے اور مسلسل بولتے تھے۔ میڈرڈ سے انھوں نے مائیک ہاتھ میں تھام کر جو لندھور بن سعدان کی داستان چھیڑی ہے تو جب تک بس منزلِ مقصود تک پہنچ کر رک نہیں گئی، ان کی گل افشانیِ گفتار جاری رہی۔
میڈرڈ سے باہر نکلنے کے لیے ایک سرنگ کا سہارا لینا پڑا۔ گائیڈ صاحب فرمانے لگے کہ یہ سرنگ ساٹھ کلومیٹر طویل ہے اور اسے صرف چار سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ شہر کے گرداگرد رنگ روڈ کا سا کام کرتی ہے۔  میڈرڈ سے باہر آ کر بس نے کھلی فضا میں سانس لیا۔ اب مضافات کا آغاز ہو چکا تھا، اور یہاں ہر طرف وہی تعمیرات کا سلسلہ نظر آ رہا تھا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔
دو گھنٹے بھر کے میدانی سفر کے بعد پہاڑیاں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سڑک پہاڑیوں سے لپٹتی ہوئی اوپر چڑھی، اور پھر دوسری طرف جا کر جیسے لپٹی تھی، ویسے ہی ادھڑتی چلی گئی۔
سپین کا آسمان، فراخ، وسیع،  کسی گنبد کی طرح منظر پر چھایا ہوا لگتا ہے۔ میں نے یہ آسمان کبھی بھی مکمل نیلا نہیں دیکھا، جگہ جگہ اون کے رنگ برنگے گولوں کی طرح بادل بکھرے ہوتے ہیں۔
موٹر وے نما سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک بات متوجہ کرتی ہے کہ سڑک کے آس پاس بد ہئیت  ہورڈنگ نظر نہیں آتے جن کی سستی اشتہاریت نے پاکستان کی شاہراہوں کے اطراف میں بکھرا حسن ڈھانپ لیا ہے۔ تاہم کبھی کبھی کسی ٹیلے پر، یا کسی موڑ پر ایک کالے رنگ کا بیل نما بورڈ ضرور نظر آتا ہے۔ گائیڈ نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہ ایک مشہور ہسپانوی شراب کے اشتہاری بورڈ تھے ، لیکن پھر حکومت نے بل بورڈوں پر پابندی لگا دی، کیوں کہ اس کے خیال میں ان سے ڈرائیوروں کے دھیان میں خلل پڑتا تھا۔ لیکن چوں کہ بیل بل فائیٹنگ کی وجہ سے سپین کی قومی علامت بن گیا ہے ، اس لیے  حکومت نے یہ بیل رہنے دیے ، تاہم ان پر کسی قسم کی عبارت رقم نہیں ہے۔
سڑک کے اطراف میں دیکھتے دیکھتے یکایک ایک منظر نے چونکا کے رکھ دیا۔  ایک طرف سبز رنگ کے معلوماتی بورڈ پر خوش نما عربی ثلث خط میں شہروں کے نام اور فاصلے تحریر تھے۔ اور پھر یہ بورڈ جگہ جگہ نظر آنے لگے۔
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ؟
ڈان ہوان نے بتایا کہ اس علاقے سے مراکش جانے والے تارکینِ وطن اور سیاح بڑی تعداد میں گزرتے ہیں اور انھی کی سہولت کی خاطر اس علاقے میں عربی بورڈ نصب کیے گئے ہیں۔
راستے میں ایک جگہ رک کر کھانا کھایا گیا۔ میرے ہمراہی سیاحوں کی اکثریت کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا، کولمبیا، چلی، برازیل، ارجنٹینا۔ چوں کہ سپین نے ان ملکوں پر حکومت کی ہے اور ان لوگوں کی زبان بھی ہسپانوی ہی ہے ، اس لیے انھیں سپین میں خاص کشش یا اپنایت محسوس ہوتی ہے۔ البتہ ایک عدد نوجوان مسلمان جوڑا بھی اس قافلے میں شامل تھا۔  عثمان کا تعلق لبنان سے تھا لیکن وہ ترکِ وطن کر کے آسٹریلیا جا بسے تھے ، اور شین وارن کے لہجے میں انگریزی بولتے تھے۔ ان کی اہلیہ بھی عرب آسٹریلین تھیں۔ تعارف کے وقت جب لوگوں کو شک گزرا کہ شاید یہ شادی شدہ نہیں ہیں تو رافعہ نے نہ صرف مٹھی کھول کر انگوٹھی دکھا دی بلکہ فوراً پرس سے اپنے ایک سالہ بیٹے کی تصویر بھی نکال کر  میز پر رکھ دی، جسے وہ اس کی دادی کی نگرانی میں میلبرن میں چھوڑ آئی تھی۔
میری خاص دوستی نیول اور ان کی بیگم سلویا سے ہو گئی، کیوں کہ یہ بس میں میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ دونوں بھی آسٹریلوی تھے اور ریٹائر ہونے کے بعد اب جہاں گردی پر نکلے تھے ، جس میں انھیں پانچ براعظموں کا سفر کرنا تھا۔
مغربی ملکوں میں حلال کھانے کا بڑا مسئلہ درپیش آتا ہے۔ اس لیے ایسے مواقع پر سبزی، مچھلی اور آلو کے قتلوں ہی پر اکتفا کرنا پڑتی ہے۔ میری فرمائش پر ارجنٹینا کی ایمیلیا نے ہسپانوی زبان میں چند کارآمد الفاظ لکھ کر دیے۔
مچھلی:   پِسکادو
آلو:   پَتاتا
سبزی:   وَردوُرا
میں نے ان سے کہا کہ میں ارجنٹینا میں ایک شخص کو جانتا ہوں۔۔۔ عالمی شہرت یافتہ کہانی نویس خورخے بورخیس کو۔ وہ بے حد حیران ہوئیں کہ تمھیں تو ہسپانوی زبان نہیں آتی، پھر بورخیس کو کیسے پڑھ رکھا ہے۔ میں نے بتایا کہ بورخیس پاکستان کے ادبی حلقوں کا محبوب ادیب ہے۔ ویسے بات سوچنے والی ہے ، کہاں لاطینی امریکہ اور کہاں اردو زبان، لیکن ادب نے ان قطبین کو ایک دھاگے میں باندھ رکھا ہے۔
کچھ ہی دیر بعد بس ایک وادی میں اترنے لگی۔  دور سے ایک مٹیالے دریا کے نشیب میں بکھرا ہوا سوادِ شہر ہویدا ہونے لگا۔ یہ قرطبہ ہے ، جسے ایک زمانے میں دنیا کے ماتھے کا جھومر کہا جاتا تھا۔
مسجدِ قرطبہ دریائے کبیر سے تھوڑی دور اونچائی پر تعمیر کی گئی ہے۔ بیرونی قلعہ نما سنگی دیوار سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے عظیم مسجد واقع ہے۔ طویل دیوار کے گرد گھوم کر ہم مالٹے کے درختوں سے بھرے صحن میں پہنچ گئے ،جہاں ایک مقامی راہبر ہمارے لیے چشم بہ راہ تھا۔ سپین میں قانون یہ ہے کہ جہاں بھی جائیں، وہیں کے مقامی گائیڈ کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ چناں چہ ایسے موقعوں پر ڈان ہوان صاحب ایک کونے میں کھڑے ہو کر سگریٹ سلگا لیتے تھے ، اور ان  کے چہرے سے ایک ایسی حسرت ٹپکنے لگتی تھی جیسے سٹیج پر بیٹھے ہوئے جغادری شاعر  کسی اناڑی کے کلام پر سامعین کی بے محابا داد و تحسین سے زخمی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔
تو آج میں اسی صحن میں یوں حیرت و حسرت کا مارا کھڑا تھا جیسے کوئی طویل سفر طے کرنے کے بعد کوئے جاناں تک پہنچے اور وہاں پہنچ کر ٹھٹک جائے ، اور اس میں ایک قدم آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہو۔ رعب، دبدبے ، بے کلی، اشتیاق اور تجسس جیسے ملے جلے جذبات کی خودرو بیلیں میرے پیروں سے لپٹ لپٹ گئیں، اور میں اپنی جگہ پر کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول