صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ادبی تجزیات

ڈاکٹر محمد یحیٰ صبا

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

بہادر شاہ ظفر اور 1857

شاعری خود ادب ہے اور ادب کا بڑا حصّہ شاعری ہے شاعری کی تعریف مغرب تا مشرق خوب ہوئے لیکن کل ملا کر شاعری کا معاملہ آج بھی وہیں ہے کہ بقول شبلی :

’’جو جذبات الفاظ کے ذریعہ ادا ہوں شعر ہے‘‘

نہ جانے حضرت انسان کے سر میں یہ سودا کب سمایا کہ وہ اپنے دلی جذبات کو مشتہر کرے ضرورتاً بھی اور بغیر ضرورت کے بھی لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس امر نے دنیا میں آرٹ کی بنیاد ڈالی دی۔ یہ بات تو مسلّم ہے کہ اس روئے زمین پر کامیاب آرٹ کے جتنے بھی نادر نمونے ہیں وہ سب دلی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں شاعری بھی آرٹ ہے اور اس میں بھی کامیاب شاعر وہی قرار پاتا ہے جو دلی جذبات کو بخوبی شعر کے قالب میں ڈھال دیتا ہے۔ ملٹن نے شعر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’شعر الفاظ کا ایسا استعمال ہے کہ اس سے تخیل دھوکہ کھا جائے۔ مصور رنگ کی مدد سے جو کام کرتا ہے اس کو الفاظ کے ذریعہ سر انجام دینے کی صنعت کا نام شاعری ہے‘‘

یہ مغربی مفکر کا خیال ہے لیکن فارسی میں نظامی عروضی السمرقندی نے بھی شعر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’شاعری ایسی صنعت ہے جس کی بدولت موہومات کی ترتیب سے چھوٹی چیز بڑی اور بڑی چیز چھوٹی کر کے دکھائی جاتی ہے اور اچھی چیز کو بد نما اور بری چیز کو خوش نما ثابت کیا جاتا ہے تاکہ انسان کے جذبات مشتعل ہوں اور طبیعت پر انبساط یا انقباض کی کیفیت طاری ہو اور یہ دنیا میں مہتمم بالشان کارناموں کا سبب بنے۔ ‘‘    (چہار مقالہ باب شاعری)

اپنے جذبات کو مشتہر کرنے سے دوسروں کے جذبات مشتعل ہوں اور اگر یہ کام قصداً کیا جائے تو ایسی شاعری بھی مقصدیت کے زمرے میں داخل ہو جائے گی۔یقیناً بہادر شاہ ظفر اسی زمرے میں شامل شاعر ہیں بھلے ہی ان کا تعلق کلاسیکی عہد سے رہا ہو غزل اور بہادر شاہ ظفر کا ذکر آتے ہی اٹھارھویں اور انیسویں صدی پر محیط ادبی منظر نامے کا عکس ذہن کے پردے پر تھرکنے لگتا ہے بالخصوص اٹھارھویں صدی کا نصف آخری اور 19ویں صدی کا نصف اول حصّہ جو بہادر شاہ ظفر کا عہد بھی ہے(پیدائش 14اکتوبر 1775اور وفات 7نومبر1862)یہ دور نہ یہ کہ اردو شاعری کا ایک اہم دور ہے بلکہ یہ وہ عہد ہے جس میں سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر جتنی تبدیلیاں ہندوستان میں ہوئیں شاید ہی کسی دور کو ایسا انقلابی رویّہ میسّر آ یا ہو۔

کہا جاتا ہے کہ آرٹ زمانۂ سکون میں پروان چڑھتا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اردو شاعری کے بامِ عروج پر پہنچنے کا عہد نہایت ہی جاں سوز عہد ہے۔ ایسا عہد جس میں ہر سطح پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ علمی میدان میں سائنس کا عمل دخل اسی عہد میں بڑھ رہا ہے ہندوستان گیر پیمانے پر انگریزوں کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا وطنیت کا جذبہ اسی دور میں برگ و بار لایا غزل کے مقابلے میں موضوعاتی نظموں کو انگریزوں کے ایما پر اسی دور میں رواج دیا گیا، تجربے کے طور پر ہی سہی اودھ کے نواب کو اسی دور میں گرفتار کیا گیا، مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو اسی عہد میں قید کر کے رنگون بھیجا گیا اور اسی عہد میں عام عوام میں ایک زبردست سیاسی تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ملک گیر پیمانے پر انگریزوں کے خلاف احتجاج کے شعلوں نے ایک مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر لی جسے انگریزوں نے  1857کا غدر کہا۔ اور اس جدو جہد میں پہلی بار اور شاید آخری بار بھی تمام ہندوستانی صرف اور صرف ہندوستانی بن گئے اور اسی جدو جہد نے یہ طے کر دیا کہ انگریزوں کو جلد یا دیر میں ہندوستان سے واپس جانا ہو گا۔

تبدیلیوں کا یہ دور، جدو جہد کے یہ صبح و شام اور افراط و تفریط کے اس ماحول میں بہادر شاہ کی شاعری پروان چڑھی۔

بہادر شاہ ظفر نے جب ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اسے چہار دانگ ہندوستان تک پھیلی ہوئی حکومت قلعے کی چہار دیواری تک سمٹی ہوتی نظر آئی اور قلعے میں بھی ان کی حکومت کیسی جب کہ وہ انگریزوں کے ذریعہ دیئے جانے والے ایک لاکھ کے پنشن یافتہ تھے اور قلعے کے اندر بھی انگریزی ریزیڈنٹ کے احکام کو اولیت حاصل تھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بہادر شاہ ظفر بادشاہ تھے اور عوام کی ہمدردیاں اور محبتیں انھیں حاصل تھی۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی طاقت تھی اور اسی کے بل پر وہ بادشاہ کہے جاتے رہے۔

بہادر شاہ ظفر کے دور کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس دور میں تعلیم کا رشتہ سائنس سے جڑ گیا۔ پریس کی ایجاد ہوئی اور پہلی بار دہلی میں ایک ایسے کالج کی بنیاد پڑی جس میں جدید تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ اخبارات کا اجرا ہوا اور سائنسی ایجادات کا اثر براہ راست معاشرے پر پڑنے لگا تھا۔ یہ ہی نہیں بلکہ اس دور میں ایک سے ایک صاحبِ فہم و ادراک شخصیات دہلی میں موجود تھیں جن کے افکار و خیالات آج بھی مستند سمجھے جاتے ہیں اور اس دور کے بعد ایسی نادر الوجود شخصیات بیک وقت دہلی میں پھر جمع نہ ہو سکیں۔ سر سید نے لکھا ہے کہ :

’’دہلی اہلِ کمال کا مرکز ہے ان اہلِ کمال میں اس دور کے اطبّا بھی شامل ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ظفر کے زمانہ تک یہی صورتِ حال تھی اہلِ علم میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۂ اللہ علیہ ان کے برادران عزیز شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین شاہ اسماعیل شہید شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی جیسے اہل علم موجود تھے جن کی وجہ سے بعد میں علم حدیث ہندوستان بھر میں پھیلا اور محدث ہونا بہت بڑے مذہبی و علمی وقار کی بات سمجھی جاتی ہے۔‘‘    (آثار الصنادید، ص:517-518)۔۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

  

 ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول