صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سہ ماہی ادبی محاذ ۔ کٹک۔ شکیل الرحمٰن نمبر
ترتیب و تدوین:سید شکیل دسنوی۔ تہذیب و تزئین: سعید رحمانیٖ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
آپ کے شکیل صاحب: عصمت شکیل
شکیل کا نام پہلی بار ۱۹۵۳ میں سنا تھا۔ میرا گھر ایسا نہ تھا کہ اردو والوں کا ذکر ہوتا، ہم نے بس غالب اور غالب سے زیادہ اقبال کا نام سن رکھا تھا۔ بنگالی فیملی، بھلا اردو والوں کے ذکر کی گنجائش کہاں تھی۔ مادری زبان بنگالی، رہن سہن بنگالیوں جیسا، ابا مرحوم کی الماریوں میں سرت بابو، ٹیگور اور نذر الاسلام، بنگالی رسالے، انگریزی کتابیں۔۔ میں تو ان میں گم رہتی، گھر کے کام کاج سے جب بھی فرصت ملتی، بنگالی ادیبوں کی کتابیں پڑھتی، مجھے سرت بابو اور ٹیگور دونوں پسند تھے اس لئے ان کے ناول اور کہانیاں بار بار پڑھتی، گیتانجلی مجھے سب سے زیادہ پسند تھی۔
۱۹۵۲ء میں شکیل کا ذکر سنا، اسی سال نومبر یا دسمبر میں وہ رانچی آئے تو میرے گھر کھانے پر آئے، معلوم ہوا پٹنہ یونیور سٹی میں اردو میں ایم اے کر رہے ہیں، اقبال ہوسٹل میں رہتے ہیں، کچھ لکھتے ہیں، ایک کتاب بھی چھپی ہے، موتی ہاری، ضلع چمپارن کے رہنے والے ہیں۔ خان بہادر مولوی محمد جان مرحوم کے سب سے چھوٹے لڑکے ہیں، اپریل میں امتحان دیں گے ایم اے اردو کا۔ جب کھانے پر آنے والے تھے تب ہی معلوم ہوا کہ ان سے میری شادی کی بات ہو رہی ہے۔ انھیں دیکھا، بھولے بھالے، معصوم سا چہرا، سوچتی ہوئی آنکھیں، بہت کم باتیں کرنے والے، اچھے لگے۔ ۵اپریل ۱۹۵۳ کو شادی ہو گئی، اس کے بعد پٹنہ جانے کو تیار ہی نہ ہوئے، چپک کر رہ گئے رانچی سے، امتحان سر پر تھا اور میں پریشان تھی اگر کوئی پرچہ خراب ہو گیا خدانخواستہ، تو جانے میری کتنی رسوائی ہو گی۔ منت سماجت کر کے، بس اسٹیند بھیجتی لیکن دیکھتی سامان لئے واپس چلے آ رہے ہیں، آنکھوں میں بڑی معصومیت اور ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ، کٹ کر رہ جاتی، بڑی مشکلوں سے کچھ نہ پوچھئے اپنی جان کی قسم دے کر پٹنہ بھیجا۔ اللہ اللہ کرتی رہی جب تک کہ وہاں امتحان دیتے رہے، واپس لوٹے تو اس طرح جیسے زندگی کا سارا مسئلہ حل ہو گیاہو اور انہیں دنیا میں اب کسی بات کی فکر نہ ہو !
۱۵؍اپریل ۱۹۵۳ء کو شادی ہوئی لیکن ایسا لگا جیسے کب کے ساتھی ہیں !شادی کی تاریخ تو یاد ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ کتنے جنم کے ساتھ ہیں اور تاریخیں کب بتاتی ہیں ایسے سفر کی باتیں۔ ان کی پرسنالٹی کا جادو ان کی پر اسرار خاموشی، کھوئے ہوئے رہنے کے انداز، ہلکی مسکراہٹ اور گفتگو کے انداز میں ہے۔ محبت کرنا جانتے ہیں اور پیار کے بھوکے پیاسے ہیں، محبت کا جواب محبت سے مل جائے تو کچھ نہ پوچھئے، جیسے انہیں سب کچھ مل جاتا ہے !شادی کے فوراً بعد ہم یکھتے ہی دیکھتے زندگی کے جانے کتنے تجربوں سے گزر گئے۔ شکیل ایم اے اردو میں پٹنہ یونیور سٹی میں اول آئے لیکن اپنی ریاست میں ملازمت نہیں ملی۔ ان کی ترقی پسندی اور کمیونزم سے ان کی وابستگی سے نقصان پہنچا، کئی کالجوں میں اردو لکچرر کی جگہیں تھیں لیکن رجعت پسندی کا گہرا سایہ جن کی طرح حادی تھا۔ شکیل کہتے یہ کتنی اہم بات ہے کہ بعض حکمراں میرے خیالات کی سچائیوں سے خوفزدہ ہیں۔ ہر دور میں نئی نسل کی آنکھیں کھولنے والوں سے حکومت کرنے والا ایسا طبقہ خوفزدہ رہتا ہے۔ تعلیمی نظام پر جن رجعت پسندوں کی حکومت ہے وہ مجھے ملازمت کیسے دیں گے۔ ہم دیکھ رہے تھے اس طبقہ نے رشتہ داروں اور معمولی فہم کے چہیتے شاگردوں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں اور یہ سلسلہ جاری تھا۔ کیا نہیں ہوا ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۴ء تک بیکاری، پریشانی، محرومی، ناکامی، دوڑ دھوپ، دہلی، رانچی، موتی ہاری، پٹنہ، صاحب گنج، دہلی میں ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتے رہے، بڑے باپ کے بیٹے تھے لیکن کمیونزم سے وابستگی انہیں جد و جہد اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی تعلیم دے رہی تھی۔ عجب وقت گزرا ہے!اداس ہو جاتی کبھی کبھی تو کہتے مجھے صرف تمہارے سہارے کی ضرورت ہے، اس طرح مسکراتے کہ سجدہ کرنے کو جی چاہتا۔
جب ۱۹۵۴ء میں اڑیسہ آئے تو زندگی میں توازن پیدا ہوا۔ اڑیسہ میں انہیں بڑی عزت ملی، بڑی محبت ملی، طلبہ ان سے بے حد متاثر تھے، کالج اور کالج سے باہر سب ان سے محبت کرنے لگے، وہ طلبہ جو ان سے تعلیم حاصل نہیں کر رہے تھے، امتحان دینے جاتے تو دیکھتی وہ بھی پہلے شکیل کے پاؤں چھوتے اور ان سے آشیرواد لیتے۔ شکیل اس زمانے میں ایک دیوانے،سرخے، تھے، اسٹالن کے عاشق، ماؤ کے پرستار، بھدرک کالج میں سنسکرت کے ایک استاد تھے شری بنرجی، شکیل ان سے بہت قریب ہو گئے، بنرجی بابو سنسکرت زبان کے عالم تھے اور’تانتر شاستر‘ سے ان کی بڑی گہری دلچسپی تھی، شکیل نے ان سے سنسکرت زبان و ادب کے متعلق بہت کچھ سمجھا۔ ’تانتر شاستر ‘ پر جب بھی وقت ملتا گھنٹوں ان سے گفتگو کرتے اور اس کے بعد رات گئے تک مجھ سے ’یوگ شاستر، تانتر شاستر،تانتر لوک، بھگوت، ایشور سدھی، منو اسمرتی، اور شیوازم، وغیرہ پر باتیں کرتے۔ میری سمجھ میں بہت کم آتا لیکن ان کی باتوں کا اثر مجھ پر بہت ہوتا۔ !زیادہ دنوں کی بات نہ تھی کہ جب مجھے گیتانجلی پڑھتے دیکھتے تو کہتے ٹیگور تو زندگی سے فرار کی تعلیم دیتا ہے، اس کی شاعری مجھے متاثر نہیں کرتی، میں مسکرا دیتی اس لئے کہ انہوں نے ٹیگور کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر بھروسہ کیا تھا ا ور بہت معمولی ترجمے پڑھے تھے، ٹیگور کے گیتوں کی خبر نہیں تھی۔ سوچتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ شکیل اس زمانے میں ’کمیونسٹ‘ تھے، جد و جہد اور ایک خوبصورت مستقبل پر ان کا اعتماد تھا، عوامی زندگی سے ان کا ایک تعلق تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ذاتی زندگی کی محرومیاں انھیں کمزور کر دیتیں، حد رجہ حساس ہیں، وہ تو ٹوٹ کر رہ جاتے اور زندگی میں کچھ نہیں کرپاتے، یہ تو بڑا اچھا تھا کہ جدوجہد پر اعتماد کرتے تھے اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے، ہارے نہیں، اداس نہیں ہوئے، اسٹبلشمنٹ کے گرد چکر لگانے والے ادیبوں، شاعروں اور پروفیسروں کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، بورژوا طبقہ، پسماندہ طبقہ، دونوں انہیں زندگی کو سمجھانے میں مدد کرتا رہا، انہیں کمیونزم سے بڑا سہارا ملا، ۱۹۵۴ء کے بعد زندگی میں توازن آیا تو ان کی خواہش کے مطابق انہیں گیتانجلی پڑھ کر سنانا شروع کیا ا ور لگا جیسے وہ آہستہ آہستہ ٹیگور کے لفظوں کی مٹھاس اور شاعر کے آہنگ میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ کہنے لگے کے یہ تو واقعی بہت بڑا شاعر ہے، تم نے پہلے کیوں نہیں سنایا ان گیتوں کو، اسی زمانے میں وہ مجھ سے بنگلہ پڑھنے لگے۔ ریڈیو پر بنگلہ گیتوں کو سننے کے لئے وقت نکالنے لگے۔
ڈگری کالج بھدرک (اڑیسہ)کے کتب خانے سے ان کا گہرا تعلق قائم ہو گیا اور دیکھتی وہ میٹا فزکس، نفسیات، تصوف، کی کتابیں خوب پڑھ رہے ہیں، رگوید، اتھر وید، اپنشد، یوگ، بدھ ازم، نروان وغیرہ سے ان کی گہری دلچسپی کا زمانہ یہی تھا۔ اسی زمانے میں انہوں نے صبح کی چار رکعت نماز شروع کی لیکن یہ نماز نو دس بجے دن کو پڑھتے، سوچتی بھی تھی اور کہتی بھی تھی کہ بھلا یہ کیسی نماز ہے، صبح کی نماز کا وقت تو نہیں ہے۔ کہتے، جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ خداوند کریم اس وقت میری عبادت چاہتے ہیں۔ مجھے بڑا نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ میں اندر سے بیدار ہو جاتا ہوں چوبیس گھنٹے کے لئے، اپنے خالق سے بہت قریب محسوس کرتا ہوں۔ یہ نماز اب تک قائم ہے، صبح نہا دھو کر وہ روز ہی نماز پڑھتے ہیں، سردی ہو یا گرمی یا برسات، صبح کا نہانا ضروری ہے، منفی5 - 6ڈگری سنٹی گریڈ ٹمپریچر کیوں نہ ہو وہ نہاتے ضرور ہیں اور اس کے بعد وہ اپنی عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی دن میں دو یا تین بار بھی نماز پڑھ لیتے ہیں لیکن یہ دوسری نماز وقت پر پڑھتے ہیں۔ کبھی کبھی قرآن کریم کھول کر گھنٹوں اس میں کھوئے رہتے ہیں۔ ۱۹۵۴ء سے ہی ’روحانیات‘ سے دلچسپی ہے، اڑیسہ میں انہیں کلچر، تہذیب، ہندوستانی تہذیب، میٹا فزکس، فلسفہ، مسٹیزم پر چھوٹی بڑی کتابیں پڑھتے دیکھتی، ان کی ڈائریوں اور نوٹ بکس کے بعض اوراق سے محسوس کرتی ہوں کہ وہ ابتدا سے ’صوفی ازم‘ کی طرف مائل تھے۔ اب تو وہ روحانی زندگی کے مسافر بن گئے، کہتے اس کی وجہ سے لوگوں سے بڑی قربت حاصل ہو گئی، بزرگوں سے اس سفر میں بھیک مانگ کر جو کچھ حاصل کرتا ہوں اس سے انسان اور انسان کے رشتے کو سمجھتا ہوں اور اس سے بڑھ کر دوسری اور کوئی بات نہیں ہے اس بھری دنیا میں۔ ہندو اساطیر، یونانی اساطیر اور چینی اور جاپانی کہانیوں اور گیتوں سے گہری دلچسپی کا زمانہ بھی یہی ہے۔ سگمنڈ فرائیڈکو پہلے بھی پڑھ چکے تھے لیکن اس زمانے میں فرائیڈ کے ساتھ یونگ بھی ساتھی بن گیا۔
۱۹۵۶ء میں کشمیر آ گئے اور اب تک ہم کشمیر میں ہیں۔ کہتے ہیں کشمیر میری زندگی کا سب سے خوب صورت ’تجربہ‘ ہے!جہاں پوری جوانی گزر گئی ہو ظاہر ہے وہ مقام سب سے بہتر تجربہ ہو گا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ شکیل کی کہانی کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ اور اس کی ضرورت بھی کیا ہے، ان اوراق میں تو آپ نے سب کچھ پڑھ لیا ہے۔ ان کی زندگی کا خاکہ ان تحریروں سے مرتب ہو سکتا ہے۔ ’ڈائری‘ اور ’نوٹ بک‘ لکھنے کا یہ شوق جانے کب سے ہے، روز صبح ڈائری اور نوٹ بک پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کی یہ تحریر نہیں پڑھی تھی، جب ایک بار اپنی ڈائریاں جلانے لگے تو مجھے اچھا نہیں لگا، غالباً دو ایسے حادثوں کے بعد انہیں روک دیا اور کہا ؛اگر راز کی باتیں زیادہ نہ ہو ں تو اجازت دیجئے کہ انہیں پڑھوں، اردو پڑھنا سیکھ لیا تھا، اردو کے جانے کتنے ناول اور افسانوں کے مجموعے پڑھ چکی تھی، ان کے خط (یہ باتیں ہماریاں )کی وجہ سے اردو سے مجھے محبت ہو گئی تھی۔ مسکرائے اور اجازت دے دی، بہت سے اوراق پڑھے اور جب بھی فرصت ملی خاموشی سے چپکے چپکے نقل کرتی رہی، بہت سے اوراق محفوظ کر لئے، ہزاروں صفحات ہیں، تین سو سے زیادہ صفحات ایسے ہیں جن کی اشاعت مناسب نہیں ہے اور شکیل کو جاننے کے لئے ان کا پڑھنا بھی زیادہ ضروری نہیں ہے اس لئے کہ اپنی شناخت سے زیادہ اپنے ملک کی سیاست اور شخصیتوں کی شناخت ہے۔ ادیبوں اور ان کی کتابوں کی شناخت ہے۔ بعض دوستوں اور اذیت دینے والوں کی شناخت ہے، جب بھی کوئی کتاب پڑھتے ہیں اپنی ڈائری اور نوٹ بک پر کچھ نہ کچھ اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔ شکیل انہیں محض تاثرات کہتے ہیں اور زیادہ اہمیت نہیں دیتے، شکیل بھی نہیں چاہتے کہ یہ صفحات شائع ہوں، وہ انہیں ضائع کر دیں گے۔ بعض شخصیتوں کی نقاب کشائی دیکھ کر حیران ہوتی ہوں کہ افراد کی فطرت کو پہچاننے کی ان میں کتنی صلاحیت ہے۔ شکیل کا سائیکو پروفائل (Psycho Profile)لکھنا چاہتی تھی، ممکن نہ ہوا۔
شکیل کو مصوری، مجسمہ سازی اور کلاسیکی موسیقی سے گہری دلچسپی ہے۔ ایک بار یاد آتا ہے انھوں نے کہا تھا اگر مناسب تربیت ہوئی ہوتی تو میں ایک مصور ہوتا یا کلاسیکی موسیقی کا استاد!میں نے جواب دیا تھا کہ مصوری تک کی بات تو ٹھیک ہے لیکن آپ کلاسیکی موسیقی کے استاد ہوتے تو میرا جینا دوبھر ہو جاتا۔ اب بھی وہ میرے اس ’جواب‘ کا ذکر کبھی کبھی کرتے ہیں اور چٹکیاں لیتے ہیں، خوب ہنستے ہیں، کہتے ہیں پھر تو تم نے مجھ سے شادی نہیں کی ہوتی، شادی ہو جاتی تو ہر صبح الاپ کے ساتھ جھگڑا شروع ہو جاتا۔ ذہن میں مصوری کے نئے نئے خاکے ہوتے ہیں اور اکثر ان خاکوں کو سمجھاتے ہیں، بیٹی انجم میں مصوری کا شوق ان ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یوں مجھے بھی تصویریں بنانے کا شوق تھا لیکن یہ شوق پورا نہیں ہوا، شادی کے بعد جب بھی کوئی تصویر بنائی، شکیل بہت خوش ہوئے اور اسے حفاظت سے اپنی فائل میں رکھ لیا۔
بچوں اور دنیا بھر کے بچوں سے ان کی محبت کا ذکر کہاں سے شروع کروں۔ بچوں کے دیوانے ہیں۔ بچوں کو دیکھے بغیر، ان کے ساتھ کھیلے بغیر، ان سے پیاری پیاری باتیں سنے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جب بچے نہیں ملتے تو اداس رہتے ہیں، محلے کے بچوں کو جمع کئے رہتے ہیں، ان کے کھیلوں کو دلچسپی سے دیکھتے رہتے ہیں اور اکثر ان کے کھیل میں شریک ہو جاتے ہیں۔ جس دن اداس رہتے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ کہیں سے کوئی بچہ ان کی گود میں ڈال دوں، کئی شہروں میں بعض بچے ان کے دوست ہیں۔ روس گئے تو وہاں بھی کچھ بچوں سے دوستی کی، پاکستان کی ایک بچی جو ملتان میں رہتی ہے اور جس کا نام ’’لالہ رخ‘‘ ہے ان سے بہت قریب ہے، اس ننھی بچی کے پیارے پیارے خط ان کے پاس آتے ہیں اور وہ بھی اسے خط لکھتے رہتے ہیں۔ بہت چاہتے ہیں ’لالہ رخ‘ کوکبھی دیکھا بھی نہیں ہے دہلی کی’مونا‘ کو بھی بہت چاہتے ہیں، کسی کے ماموں جان، کسی کے تایا جان، کسی کے انکل۔۔۔ بچوں کی ایک خوبصورت دنیا دیکھنے کے خواہش مند ہیں، سڑکوں پر بھٹکتے بھیک مانگتے جوا کھیلتے اور ورکشاپ میں کام کرتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر بہت کڑھتے ہیں جیسے وہ خود اس بربادی کے ذمہ دار ہوں، ان کا بس چلے تو بچوں کے لئے تحریک چلائیں اور ان کے حقوق کے لئے لڑتے رہیں۔
طلبا اور خصوصاً ان کے طلبا۔۔۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ ان کے بارے میں جتنا سوچتے رہے ہیں شاید ہم لوگوں کے بارے میں بھی اتنا سوچا ہو گا۔ نئی نسل انہیں بہت عزیز ہے، اس کے اضطراب اور اندر کے انتشار کو سمجھتے ہیں اور اور اس سے ہمیشہ با معانی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ نئی نسل کو جو آزادی نصیب ہے وہ ہمیں کبھی نصیب نہیں ہوئی، سوالات کرنے کی جو آزادی نئی نسل کو ہے وہ اب تک کسی نسل کو نہیں ملی تھی۔ اس آزادی کے معیار اور اس آزادی کے تحفظ کی ضرورت ہے، اس بات کا احساس دیتے رہنا طرح طرح سے بہت ضروری ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بہتر جذباتی اور ذہنی رشتے کے بغیر سچی تعلیم ممکن نہیں ہے، استاد کی اپنی دیوانگی کم ہوتی جا رہی ہے، معلمی شیشہ گری کا پیشہ ہے، بہت ہی نازک، اس کے لئے معلم کو سچی دیوانگی کی ضرورت ہے۔ جانے کتنے برسوں کے معلم ہیں، ان برسوں میں ہزاروں طلبا سے رشتہ قائم کیا، صرف دو یا تین طلبا مجھ سے خفا ہوئے اور ایسے خفا ہوئے کہ بس روٹھ گئے۔ میرے مزاج سے ان کا تعلق قائم نہ ہو سکا، میں ناکام ہو گیا، وہ اب بھی ان طلبا کو محبت سے یاد کرتے ہیں اور بعض اوقات بہت دکھی ہو جاتے ہیں، مجھے معلوم نہیں یہ کون تھے، لیکن ان کے دکھ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں کے باوجود انہیں چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں ہر انسان میں خامیاں ہوتی ہیں مجھ میں بھی ہیں، ممکن ہے اپنی غلطی کی وجہ سے ایسے چند طلبا سے میرا بہتر رشتہ قائم نہ ہو سکا۔ میں انہیں وہ سب کچھ دے نہ سکا جو وہ چاہتے تھے۔ شاید میرے لئے ممکن نہ تھا۔ رشتے کے درمیان کئی باتیں ہو جاتی ہیں۔ طلبا واقعی ان کی کمزوری ہیں، ان کے درمیان ہی وہ زیادہ خوش رہتے ہیں، ان کے مسائل ہی سے ان کی زیادہ دلچسپی ہے۔
اپنے استادوں میں وہ اب تک اپنے مکتب کے مولوی منظور کو فراموش نہیں کرسکے ہیں جن سے انہوں نے اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھا، اکثر ان کا ذکر کرتے ہیں، بچپن کے واقعات سناتے ہیں، ان کی محبت اور شفقت کا ذکر کرتے ہیں، ان کی سادہ نفیس زندگی، ان کے فقر اور ان کے صوفیانہ مزاج سے ان کی ٹوٹی ہوئی بائیسکل تک کی باتیں اکثر سنی ہیں۔ وطن جب بھی گئے ان سے کسی نہ کسی طرح سے ملے، چند سال ہوئے ان کا انتقال ہو گیا اورشکیل پر ان کی جدائی کا بڑا اثر ہوا۔ کہتے ہیں بچپن میں پیار ومحبت سے پڑھانے والوں کی بڑی کمی تھی۔ جبکہ ہر مولوی چھڑی سے مارتا تھا، طمانچے لگاتا تھا، طرح طرح کی سزائیں دیتا تھا، میرے مولوی صاحب پیار اور محبت سے پڑھاتے تھے۔ قرآن اور حدیث کی تعلیم بھی انہوں نے دی، تختی پر سب سے پہلے ان کے پاس بیٹھ کر اردو کے حروف لکھے۔ اس سلسلے میں اکثر اپنے شہر کے ایک معروف استاد اور چمپارن کے مشہور شاعر مولانا عترت مرحوم کی مثال دیتے ہیں جنھوں نے ان کے بھائیوں اوران کی بہنوں کو بچپن میں پڑھا یا تھا۔ بہت اچھے استاد تھے، لیکن پیٹے بغیر وہ کسی کو جانے نہیں دیتے تھے۔ اچھی پٹائی کر کے انہیں سکون ملتا تھا، بچوں کو پیٹنے کے بعد ان کی حالت غیر ہو جاتی تھی، عجیب کیفیت میں مبتلا ہو جاتے، سینے کے درد سے تڑپنے لگتے اور اپنے چھوٹے سے چاقو سے خود کو لہو لہان کر لیتے تھے۔ گھر کے لوگ دوڑتے اور انہیں کسی طرح ان کے گھر پہنچایا جاتا، چند دن شکیل بھی ان کے پاس بیٹھے لیکن جس دن ان کی چھڑی سے پٹے وہ آخری دن تھا، پھران کے قریب نہیں گئے۔
اپنے استادوں میں وہ ڈاکٹر سید احمد حسین، ڈاکٹر سید اختراورینوی اور علامہ جمیل مظہری کا ذکر ہمیشہ بڑے احترام کے ساتھ کرتے ہیں، کہتے ہیں یہ نہ ہوتے تو میں کہاں ہوتا!علامہ نیاز فتح پوری، فراق گورکھ پوری اور سید حسن عسکری کو اپنا معنوی استاد کہتے ہیں۔۔۔ اور غالب؟وہ تو ان کے سب سے بڑے استاد ہیں جو غالباً ہر وقت ان کے پاس رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ سمجھاتے رہتے ہیں، غالبؔ کی تصویر تو ان کے سر کے اوپر لٹکتی رہتی ہے۔ دفتر میں ہوں یا گھر میں !کہتے ہیں شخصیت کے گرد جو طلسمی ہالہ ہوتا ہے نا، وہ اب بھی غالبؔ کی ان تصویروں کے گرد موجود رہتا ہے جنہیں میں پسند کرتا ہوں اور میری ذات کا طلسمی ہالہ اس سے مس ہو کر ہمیشہ حرارت اور تازگی پاتا رہتا ہے۔
اپنی ذمہ داریوں کا انہیں ہمیشہ احساس رہتا ہے، دوسروں کی مدد کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتے ہیں، جب ناکام ہوتے ہیں تو بہت دکھی ہو جاتے ہیں، مالی حالت ہمیشہ نازک رہی لیکن جو کچھ ملا خدا کا شکر ادا کیا، لالچ، خوشامد، خود غرضی اور دربار داری۔۔۔ اس زمانے کی ان ’عظیم قدروں، سے ہمیشہ دور رہے۔ دربار داری تو کر ہی نہیں سکتے، کئی بار اپنانقصان کیا، بچوں کا بھی نقصان کیا۔۔۔ اس بھری دنیا میں مجھے اپنا سب سے بڑا ہمدم اور دوست سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں وہ سب کچھ سنوں جو ان کے دل میں ہے اور میں سنتی بھی ہوں، یہاں تک کہ اپنے رومان اور اپنی محبت کی داستان بھی نمک مرچ لگا کر مزے مزے میں سناتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ میں بیوی ہوں اور اگر ان کے مزاج کا اندازہ نہ ہوتو ایسی باتوں کا مجھ پر اثر بھی ہو سکتا ہے۔
بڑے حسن پسند ہیں، حسن تو بس ان کے دل میں کھپ جاتا ہے۔ اپنی زندگی میں جب بھی کوئی خلا سا محسوس کرتے ہیں اسے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی گلاب کے پھولوں کی کیاریوں سے، کبھی اچھی کتابوں سے، کبھی مجھے اپنی پسند کے کپڑے پہنا کے، کبھی اپنے تینوں بچوں کے ساتھ ہنس کھیل کے، کبھی محلے کے بچوں کی دعوتیں کر کے، کبھی کسی کے ’چہرے، کو آئیڈیل بنا کے۔۔۔ چہرا چغتائی کی تصویر کا ہو یا ڈالی کی’نیوڈ‘ (Nude)کا۔۔ یا کوئی زندہ متحرک چہرا!مجھے ’یہ شکیل‘ بھی عزیز ہیں ان تمام چیزوں کے ساتھ !کہتے ہیں عورتوں کی آنکھوں اور ہونٹوں پر آسام اور بنگال کا ملا جلا تیز جادو ہوتا ہے، خوشبو بہت پسند ہے، خوشبو کے بغیر نہیں رہ سکتے، گلاب اور کیوڑے کے عرق سے بڑی رغبت ہے، جسم کی خوشبوؤں کا ذکر بھی کبھی کبھی مزے لے لے کر کرتے ہیں، خوشبو کو انسان اور انسان کے رشتے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں انسان کا ’شعور‘ اس حس سے بہت دور ہو گیا ہے لیکن اس کے لا شعور میں یہ حس بہت متحرک ہے۔
ذہن بہت پُر اسرار ہے اور یہ پُر اسراریت صرف ان کے لئے ہے، اس سے کسی کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ ان کی اپنی دنیا ہے۔ اس میں ان کی ’دیو مالا‘ ہے، ان کے اپنے تراشے ہوئے بت، چہرے، پتھر، درخت۔ یہ ذہن انہیں پُرانے کھنڈروں کی طرف لے جاتا ہے۔ پرانے کھنڈروں میں جانے انہیں کس قسم کی رومانیت ملتی ہے۔ نالندہ ساتھ گئی، ایک ایک پتھر پر بیٹھ رہے تھے۔ ایک ایک پتھر کو دیکھ رہے تھے، ہر دیوار پر ہاتھ پھیر رہے تھے جیسے سب ان کے جانے پہچانے ہوں، جیسے وہ یہاں صدیوں پہلے رہتے ہوں، یہی کیفیت ’بودھ گیا‘ میں دیکھی، پُرانے مندروں، بزرگوں اور صوفیوں کے پرانے حجروں میں بھی ان کی یہی حالت ہو جاتی ہے۔ کشمیر میں حضرت زین شاہ کے حجرے کو دیکھنے کے لئے مجھے لے جا کر کتنی بلندیوں پر چڑھ گئے اور وہاں پہنچ کر گم سم ہو گئے۔ اسی طرح پرانے بڑے اور پھیلے ہوئے درختوں میں کشش محسوس کرتے ہیں، بعض درختوں کے پاس دیکھا ہے اس طرح کھڑے ہو گئے ہیں جس طرح وہ خود درخت ہوں، جانے اس وقت ان کے ذہن میں کیا ہوتا ہے۔ مجھے کالی داس کی’مالا ویکا گنی مترم‘ (Malavikgnimitram)کی یاد آتی ہے، جس میں درخت کسی خوبصورت شے کو چھو لینے کی آرزو کا اشارہ ہے۔ جب تک وہ اسے نہیں چھوئے گا پھل پھول نہیں دے گا۔ درخت ممکن ہے شکیل کے لئے ’عورت‘ پیکر ہو، وہ اکثر بعض درختوں کو دیکھ کر رقص کی اداؤں کا ذکر کرتے ہیں۔ درختوں کی ’جمی ہوئی حرکتوں‘ میں ا نہیں عورت کے حرکت کرتے ہوئے جسم نظر آتے ہیں۔
ان کی کوئی چیز گم ہو جائے تو مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی، حد درجہ الجھ جاتے ہیں، اکثر چند چھوٹے چھوٹے کاغذ گم ہو جاتے ہیں، ایک چھوٹا سا کاغذ گم ہو گیا، اورسارا کمرہ باہر آ جاتا ہے۔ کاغذات کبھی سلیقے سے نہیں رکھتے حالانکہ رکھنا چاہتے ہیں، کہتے ہیں ڈھنگ کا کوئی کمرہ نہیں ہے جسے اپنا کتب خانہ بناؤں۔ صبح جب وہ کام کرتے ہیں اور مجھے آواز دیتے ہیں تو سمجھ جاتی ہوں کہ جناب کی کوئی چیز گم ہو گئی ہے یا کسی کتاب کو کباڑ خانے سے نکالنا ہے۔ جب میں آ جاتی ہوں تو اطمینان ہو جاتا ہے انہیں جیسے کھوئی ہوئی چیز اب مل جائے گی۔ جس طرح ان کے ذہن میں بچوں کے لئے ’شکیل نیکیتن‘ بنانے کا ایک پیارا سا خواب کب سے کسمسا رہا ہے، اسی طرح اپنے لئے ایک ذاتی کتب خانے کو اپنے گھر میں دیکھنے کا خواب کسمسا رہا ہے۔ اپنے کتب خانے کا خوبصورت سے خوبصورت خاکہ میرے سامنے رکھتے ہیں، خدا ان کی خواہش جلد پوری کریں لیکن میں ان کے سامنے یہی کہتی ہوں کہ وہ بھی کباڑ خانہ بن جائے گا ا ور وہاں سے بھی آپ کاغذ کے چند پرزوں کے لئے مجھے آواز دیتے رہیں گے۔
اچھے کھانے پسند ہیں، سادہ اور اچھے کھانے!مرچ برداشت نہیں کرتے لیکن کھانا ضرور چاہتے ہیں، کھانے اور کھلانے کا شوق پرانا ہے، ان کی مہمان نوازی نے کبھی کبھی ہمیں قرض میں ڈال دیا ہے اور مجھے بڑی پریشانی ہوئی ہے۔ سوپ، مرغ، سادہ چاول، شامی کباب، سیخ، گوشت کی کشمیری یخنی، شیرینی۔ ان کے عاشق ہیں، مچھلی شوق سے کھاتے ہیں، لیکن گھر کے علاوہ اور کہیں نہیں۔ آم ان کی غالباًسب سے بڑی کمزوری ہے، کشمیر میں آم کے لئے انہیں بعض اوقات تڑپتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہاتھ میں آم دے دیجئے ضد کرتا ہوا مچلتا ہوا بچہ خاموش ہو جائے گا ا ور اس کی ساری توجہ آم پر مرکوز ہو جائے گی۔ عجیب بات ہے، محفلوں میں، سب کے سامنے آم کھانے سے کتراتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہر لذیذ شے کا لطف تنہائی میں ہے۔ چاہتے ہیں، جو وہ خود پسند کرتے ہیں، دوسرے بھی پسند کریں، دعوت دیں گے اور بتائیں گے چار مہمان آ رہے ہیں دن بھر میں چار پانچ مہمانوں کو اور دعوت دے دیں گے اور مجھے اس وقت صحیح تعداد کی خبر ملے گی جب کھانا تیار ہو چکا ہو گا۔ دو تین بار ایسا ہوا کہ مہمانوں کو تاریخ کچھ اور بتائی گئی اور مجھے کچھ اور۔۔ مہمان نہیں آئے اور کھانا تیار رہا، خود بیٹھ کر کھا رہے ہیں اور کبھی ایسا ہوا کہ مہمان آئے اور کھانا غائب۔۔ میری پریشانی بڑھ گئی۔
’شیو، کرتے ہوئے عموماً داڑھی کے خلاف، بلیڈ کے خلاف، ریزر اور صابن کے خلاف، تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کے خلاف تقریر کرتے ہیں لیکن روز ’شیو‘ بنانا ضروری بھی سمجھتے ہیں، صبح تڑکے اٹھ جانے اور لکھنے پڑھنے کی عادت پرانی ہے، چار بجے اٹھ گئے چائے فوراً چاہئے، جو کام کر لیتے ہیں بس صبح میں، رات میں ہلکی پھلکی چیزیں پڑھتے ہیں، کئی برسوں سے رات میں لکھنا پڑھنا بند کر رکھا ہے، آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں، زیادہ زور ڈالنا پسند نہیں کرتے۔
سفر سے بہت گھبراتے ہیں، باہر کہیں جانا ہو تو چاہتے ہیں پورا گھر ساتھ چلے، بہت مجبوری کی حالت میں تنہا سفر کرتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر اپنی مکمل بدحواسی کا ثبوت دیتے ہیں اور کوئی دوسرا انہیں سہارا نہ دے تو جانے وہ کس گاڑی میں کہاں پہنچ جائیں۔ ان کے سفر کے اتنے قصے ہیں کہ یاد کر کے ہنستی ہوں۔
مجھ سے کسی بات پر اختلاف کرتے ہیں تو اکثر زور زور سے باتیں کرنے لگتے ہیں، جب میری آواز تیز ہوتی ہے تو کہتے ہیں آہستہ بولو، جب میں سمجھاتی ہوں بابا آہستہ بولئے تو کہتے ہیں ’لڑائی ہو تو ٹھیک سے ہو، کوئی سنتا ہے تو سنے، کسی غیر کی بیوی سے جھگڑا تو نہیں کر رہا ہوں۔ عموماً انہیں غصہ اس وقت آتا ہے جب میرے سر میں درد ہوتا ہے اور مجھے لیٹے ہوئے دیکھ لیتے ہیں، میں کہتی ہوں میری تکلیف کا آپ کو ذرہ برابر خیال نہیں آتا تو اکثر فرمایا جاتا ہے یہ تکلیف اس لئے ہوئی ہے کہ کل تم سرد ہوا میں باہر نکل گئی تھیں، تم نے سوئیٹر نہیں پہنا تھا، تم آرام نہیں کرتیں، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی غصہ در اصل ان باتوں پر آتا ہے، میرے سو جانے یا لیٹنے پر نہیں، اس غصے کا اظہار جانے ایسے وقت کیوں ہوتا ہے جب مجھے آرام کی ضرورت ہو تی ہے، اگر رات کے کھانے کے بعد ان کے آرام فرمانے سے قبل سو گئی تو خفا ہو جاتے ہیں، صبح اٹھ کر اپنی ’بے پناہ تنہائی‘ کا ذکر فرمانے لگتے ہیں، مجھ سے شکایت یہ ہوتی ہے کہ قریب ہوتے ہوئے انہیں تنہا کر دیا۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ میں ان کی وجہ سے جاگ رہی ہوں اور میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہیں تو مسکراتے ہیں اور بڑے پیار سے کہتے ہیں ’سو جاؤ، خدا کی قسم صبح اپنی تنہائی کا کوئی ذکر نہیں کروں گا۔ گھر میں جب تک کام کرتے رہتے ہیں چاہتے ہیں کہ میں کہیں قریب بیٹھی رہوں، مجھے اتنی فرصت کہاں ہے، میرے سر میں درد ہو اور میں سونا چاہوں تو ان کی خواہش ہو گی کہ ان سے باتیں کرتی رہوں، خدانخواستہ کسی بچے کی طبیعت خراب ہوئی، بخار ہوا، اسے آرام کی ضرورت ہو ئی تو چاہیں گے وہ باتیں کرے، ان کے ساتھ کھیلے، وہ کسی کو خاموش پڑا دیکھنا نہیں چاہتے، لاکھ کہتی ہوں سونے دیجئے بخار ہے، آرام کی ضرورت ہے، وہ بچے کو اٹھا دیں گے، باتیں کریں گے، لطیفے سنائیں گے، ہنسانے کی کوشش کریں گے، اداکاری کریں گے، صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم سست پڑے نہ رہیں، تکلیف میں بھی ہنستے رہیں، ان سے باتیں کرتے رہیں، خدا نہ کرے کبھی انہیں بخار آئے، ہلکی سی حرارت ہوئی اور انہیں اس بات کا علم ہو گیا تو کچھ نہ پوچھئے، آہ، آہ کی آواز ہر طرف گونجنے لگے گی، پرانی باتیں سنائی جائیں گی، عجیب و غریب کہانیاں، عجیب و غریب واقعات، ادھر کی بات ادھر، ادھر کی بات ادھر۔ پہلے تو یہ عالم تھا کہ شکیل کو بخار آیا اور بچے قریب بیٹھ گئے اب پا پا کی مزیدار باتیں سننے کو ملیں گی۔
اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی تعداد ان کے حاسدوں اور دشمنوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جب اپنے حاسدوں اور بد خواہوں کے نام انگلیوں میں گنتے ہیں تو تین یا چار سے زیادہ نام نہیں لیتے اور پھر ان کے بارے میں کہتے ہیں یہ بڑے معصوم لوگ ہیں، ان سے محبت کرنے کے مواقع مل جائیں تو یہ بھی دوست بن جائیں گے۔ کئی برسوں سے بالکل الگ تھلگ گھر میں رہنے لگے ہیں، لوگوں سے ملنا جلنا کم ہو گیا ہے، ادبی جلسوں اور محفلوں میں بھی نہیں جاتے جب تک کہ کوئی مجبوری نہ ہو، کہتے ہیں گھر جنت ہے، باہر جہنم کی آگ ہے۔
کم و بیش آٹھ وائس چانسلروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے، ان میں صرف دو شخصیتوں سے متاثر ہیں، شکیل نے ان’نام نہادوائس چانسلروں‘ کو کبھی پسند نہیں کیا جنھوں نے ایک’اسٹبلشمنٹ‘ بنا کر کام کیا ہے۔ پہلی ملاقات کے بعد جس وائس چانسلر کے بارے میں جو کہ دیا وہ واقعی ایک نہ مٹنے والی لکیر بن گئی ہے(خود تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہے)
ایسے شاعروں اور ادیبوں سے بھاگتے ہیں جو اپنی چیزیں خو اہ مخواہ سناتے ہیں۔ اچھے شاعر یا ادیب کی پہچان ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ فرمائش کی جائے پھر وہ اپنی کوئی تخلیق سنائے اور شکیل فرمائش بہت کم کرتے ہیں، جب فرمائش کرتے ہیں تو واقعی فرمائش رسمی نہیں ہوتی بڑا خلوص ہوتا ہے اس میں۔ کہتے ہیں دو واقعات بھول نہیں سکتا، ایک بار دہلی میں بس کے ’کیو‘ میں انہیں اپنے پیچھے پا کر ایک بزرگ ناول نگار نے اپنی جھولی سے ناول کا مسودہ نکال کر سنانا شروع کر دیا تھا ا ور اس کے بعد مسودہ اور قلم بس کے اندر بھیڑ میں تھما دیا تھا کہ اگر کچھ جملے بہتر نہیں ہیں تو کاٹ دیجئے اور دوسرے جملے لکھ دیجئے، دوسرا واقعہ یہ کہ ایک افسانہ نگار نے شکیل سے وقت لیا، گھر پر آئے، افسانہ کاہے کو تھا، ایک مختصر سا ناول تھا، شکیل کے پسینے چھوٹ گئے، ابھی انہوں نے چند صفحات پڑھے تھے کہ بجلی چلی گئی اور شکیل نے خدا کا شکر ادا کیا، سردی کی رات تھی، سردیوں میں بجلی چلی جاتی تو دیر سے آتی تھی، شکیل خوش تھے۔ افسانہ نگار نے جب یہ کہا کہ یہ ’افسانہ‘ ا ا سے یاد ہے اور اس نے اندھیرے میں سنانا شروع کیا تو شکیل کی گردن کرسی پر لڑھک گئی، کہتے ہیں اتنی بڑی سزا مجھے اب تک نہیں ملی تھی!ایک واقعہ یہ بھی سن لیجئے، اس میں تو میری ذات پھنس گئی تھی، ایک شاعر شکیل کو کئی دنوں سے پریشان کر رہے تھے، صبح شام آتے اور طویل نظمیں سناتے، شکیل نے سب برداشت کیا، اتوار کا دن تھا، شکیل ڈرائنگ روم میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ دروازے پر شاعر صاحب آ گئے، شکیل نے مجھ سے کہا خدا کے لئے آج بچا لو، اتوار کے دن کو خراب کرنا نہیں چاہتا، میری سمجھ میں نہیں آیا، کیا کروں، دروازے پر گئی، شاعر صاحب اندر آئے، سلام کیا اور تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئے، میں کچھ نہ کہ سکی، جب ڈرائنگ روم میں آئی تو دیکھا شاعر صاحب اطمینان سے صوفے پر بیٹھے گنگنا رہے ہیں اور شکیل صاحب غائب ہیں، کہاں چلے گئے؟ابھی تو یہاں بیٹھے تھے؟دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں ؟یہ اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟فوراً محسوس ہوا مجھے کہ اسی کمرے کے بڑے ٹیبل کے نیچے چھپے بیٹھے ہیں، چونکہ ٹیبل کلاتھ کافی بڑا تھا اس لئے وہ نظر نہیں آ رہے تھے، مجھے ہنسی بھی آئی لیکن کرتی کیا، انہیں کیا سوجھی کے ٹیبل کے نیچے چھپ گئے۔ اگر اس شخص نے دیکھ لیا تو؟ میرا تو بُرا حال تھا، بڑی مشکلوں سے کہ سکی ’بھائی صاحب شکیل تو ابھی ابھی باہر گئے ہیں دیر سے آئیں گے۔‘ اس کے باوجود وہ نہ اٹھے، کچھ دیر مجھ سے باتیں کرتے رہے، بچوں کی خیریت پوچھتے رہے، بہار کی خیریت پوچھتے رہے، میرا دھیان تھا کہ ٹیبل کی طرف لگا ہوا تھا، پسینے پسینے ہو رہی تھی، اگر شکیل کو گرد کی وجہ سے چھینک آ گئی تو کیا ہو گا۔۔ جب تک شاعر صاحب بیٹھے رہے کانپتی رہی، جب وہ چلے گئے تو شکیل اطمینان سے باہر نکلے اور اخبار لے کر پڑھنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، اچانک مجھے ہنسی آ گئی اور میں وہیں فرش پر لوٹ پوٹ ہو گئی، جب تک ہنستی رہی شکیل بڑے سنجیدہ رہے، جب میں نے خود پر قابو پا لیا تو انہوں نے ہنسنا شرو ع کیا اور اتنا ہنسے اتنا ہنسے کہ فرش پر لوٹنے لگے۔
ہم دونوں کو گلاب پسند ہے، اپنے چھوٹے سے باغ میں ہم نے مختلف رنگوں کے گلاب لگا رکھے ہیں، بہار کے موسم میں جب یہ گلاب کھلتے ہیں تو بہت بھلے لگتے ہیں۔ برسوں سے شکیل کی عادت یہ ہے کہ وہ موسم بہار کا پہلا سُرخ گلاب میرے جوڑے میں لگا دیتے ہیں، اس ’زیور‘ کو پا کر لگتا ہے جیسے مجھے جانے کتنے زیورات مل گئے ہیں۔ شکیل کو سونے چاندی کے زیورات بنانے کی بڑی خواہش رہی لیکن اس خواہش کا اظہار انہوں نے کبھی کھل کر نہیں کیا ہے، کہتے ہیں مجھے زیورات پسند نہیں ہیں، جانتی ہوں وہ کیوں کہتے ہیں، یوں مجھے بھی زیورات بنوانے اور پہننے کا شوق نہیں ہے، مجھے ہر سال بہار کے موسم میں گلاب کا ایک سُرخ پھول ان کے ہاتھوں سے مل جاتا ہے اور سمجھتی ہوں کہ سونے چاندی سے لد گئی ہوں، وہ بھی ایک سُرخ گلا ب میرے جوڑے میں لگا کر خوش ہو جاتے ہیں جیسے ان کی کوئی بہت بڑی آرزو پوری ہو گئی ہو۔ گلاب ہم دونوں کے رشتے کی ایک مضبوط کڑی ہے۔۔ ایسی کتنی کڑیاں ہوتی ہیں جن کا احساس ہمیں نہیں ہوتا یا ہم ان کی قدر نہیں کرتے!۔
٭٭٭٭٭٭٭٭