صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ادب منارے

ڈاکٹر غلام شبیر رانا

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

سلطان جمیل نسیم: ایک حقیقت نگار افسانہ نویس

        سلطان جمیل نسیم کا نام عالمی ادبی حلقوں  میں  کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ گزشتہ چھ عشروں  سے پرورش لوح و قلم میں  مصروف ہیں۔  نابغہ روزگار مرثیہ نگار،ممتاز دانشور حضرت صبا اکبر آبادی کے اس عظیم فرزند نے بڑے زوروں  سے اپنی صلاحیتوں ،تخلیقی کامرانیوں ،ادبی فعالیتوں  اور  افسانوں  کو حقائق کے پیرائے میں  بیان کرنے کے معجز نما اسلوب اور  زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے روشنی کے اس سفر کا آغاز ۱۹۵۳ میں  کیا جب ان کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔ اب تک ان کے اڑھائی سو سے زائد افسانے شائع ہو چکے ہیں۔  انھوں  نے اپنے منفرد اسلوب کے اعجاز سے اردو کے نامور اور  ممتاز افسانہ نگار کی حیثیت پوری دنیا میں  شہرت حاصل کی۔ ان کے افسانوں  کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں  میں  شائع ہو چکے ہیں۔ استاد محترم ڈاکٹر نثار احمد قریشی (مرحوم)جو چار برس قاہرہ کی الاظہر یونیورسٹی میں  تدریس اردو پر مامور رہے انھوں  نے میرا تعارف ایک مصری طالبہ سے کرایا جو اسلام آباد میں  اردو افسانے پر تحقیقی مقالہ لکھ رہی تھیں۔ یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی نگرانی میں  پی ایچ۔  ڈی سطح کے لیے لکھا جا رہا تھا۔ یہ آج سے تیس سال قبل کی بات ہے ،میرے دل میں  یہ تجسس پیدا ہوا کہ کیوں  نہ میں  بھی اس یگانہ روزگار ادیب اور  افسانہ نگار کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کروں۔ اس سے قبل میں  حضرت صبا اکبر آبادی کی مرثیہ نگاری پر دو تجزیاتی مضامین لکھ چکا تھا جو بعد میں  ماہ نامہ عکاس،اسلام آباد اور  سہ ماہی تجدید نو لاہور میں  شائع ہوئے جنھیں  ادب کے سنجیدہ قارئین نے بنظر تحسین دیکھا۔ میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز و افتخار ہے کہ مجھے حضرت صبا اکبر آبادی سے پانچ مرتبہ ملنے کا موقع ملا،ان کا کلام ان کی زبانی سنا۔ اردو مرثیہ کے فروغ میں  ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔  ان کی مرثیہ نگاری انیس دبیر کی روایت اور  عہد جدید کے مسائل کی تمازت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اتنے بڑے علمی اور  ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سلطان جمیل نسیم نے جب فن افسانہ نگاری کو اپنایا تو خون جگر سے اس صنف ادب کی آبیاری کی۔ ان کے افسانوی مجموعے  آج بھی دنیا بھر میں  مقبول ہیں۔

                سلطان جمیل نسیم کا پہلا افسانوی مجموعہ ۱۹۸۵ میں  شائع ہوا اس کا نام تھا ’’کھویا ہوا آدمی‘‘ آج کا دور اپنے براہیم ؑ کی تلاش میں  ہے۔ یہ جہاں  صنم کدہ ہے اس میں  اس قدر سراب ہیں  کہ آدمی ان کی جان لیوا کیفیات میں  کھو کر اپنی آرزوؤں ،امنگوں  اور  ارمانوں  کی لاش اپنی ہی کندھوں  پر اٹھا کر اپنی حسرتوں  پر خود ہی آنسو بہانے پڑتے ہیں۔ یہ ایک لرزہ خیز اعصاب شکن حقیقت ہے کہ ہمارا نشیمن کھو چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج کا انسان خود بھی اپنی حقیقت کا شناسا نہیں۔ اپنے بحر خیالات کے پانی کی عمیق گہرائیوں  میں  غوطہ زن ہو کر زندگی کے تلخ حقائق  کے گہر ہائے آبدار کی غواصی کے لیے وہ  سرے سے آمادہ ہی نہیں۔ مسلسل شکست دل کے باعث ایک خوف ناک بے حسی نے اسے اپنی گرفت میں  لے لیا ہے۔  کھویا ہوا آدمی میں  شامل افسانے فرد کی اسی جذباتی اور  نفسیاتی کیفیت کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’سایہ سایہ دھوپ‘‘ ۱۹۸۹ میں  منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد ’’ایک شام کا قصہ‘‘ کے عنوان سے ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ ۲۰۰۰ میں  شائع ہوا۔ ’’میں  آئینہ ہوں  ‘‘ کے عنوان سے سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  کا چوتھا مجموعہ  ۲۰۰۲ میں  شائع ہوا۔ سلطان جمیل نسیم نے  ہمیشہ یہ تمنا کی کہ اس عالم آب و گل میں  جہاں  دشت جنوں  سر ہر خار کو تیز رکھے ہوئے ہے ،اس میں  اپنے من میں  دوب کر سراغ زندگی پانا ہی اصل زندگی ہے۔ وہ آئینۂ الفاظ میں  حالات کی حقیقی تصاویر دکھانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں  وہ جانتے ہیں  کہ باہر کا دھن تو آ تا جاتا ہے یہ زندگی ویران سرائے کے دیے کے مانند ہے۔ ان کی تحریریں  پڑھ کر تمام احوال کھلتا چلا جاتا ہے  آئینے میں  رکھے  چہرے اور  خورشید مثال شخص لوح جہاں  پر حرف مکرر کے مانند کاتب تقدیر کے ہاتوں  مٹا دیے جاتے ہیں۔ 

 (اقتباس)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول