صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ادب دریچے

فضہ پروین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

امتیاز علی تاج کا ڈراما ’’انار کلی ‘‘ : ایک تجزیاتی مطالعہ

      اردو ڈراما کی تاریخ میں  امتیاز علی تاج کی تخلیق ڈراما ’’انار کلی کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے۔یہ ڈراما پہلی بار 1932میں  شائع ہوا۔اس کے بعد اب تک اس کے متعدد  ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں   اور اس ڈرامے کی مقبولیت بر قرار ہے۔بھارت میں   انارکلی کی کہانی کی اساس پر ایک فلم’’ مغل اعظم ‘‘ بنائی گئی جسے فلم بینوں  نے بہت پسند کیا۔اپنی نوعیت کے لحاظ سے انارکلی ایک ایسی رومانی داستان ہے جس کے حقیقی مآخذ کے بارے میں  اب تک کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت یا دستاویزی ثبوت سامنے نہیں  آیا۔خرافات،مفروضات،قیاس اور وہم و گمان کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے تحقیقی منظر نامے کو گہنا دیا ہے۔ادب کے قارئین اس داستان کے سحر میں  اس قدر کھو گئے ہیں  کہ حقائق کی تلاش  میں  پیہم ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں  مگر نشان منزل کہیں  نہیں  ملتا۔وہی نور جہاں  اور جہانگیر کے کبوتروں  والا معاملہ ہے جو کبھی تھا ہی نہیں  مگر لوگ اب تک اسے کالنقش فی الجر قرار دیتے ہیں۔انار کلی کی پوری داستان ایسے واقعات سے لبریز ہے جو  سرے سے کبھی وجود میں  ہی نہیں  آئے۔

       ڈراما انارکلی ایک رومانی موضوع پر لکھی گئی داستان کی اساس پر استوار ہے۔مطلق العنان مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنی منظور نظر کنیز انار کلی کے حسن و جمال اور رقص کا شیدائی ہے۔نادرہ نامی یہ کنیز قصر شاہی میں  اس قدر دخیل ہے کہ تمام امور میں  بادشاہ  اس کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔اس کنیز سے بادشاہ نے جو پیمان وفا باندھا وہ اس کی زندگی میں  بے حد اہم ہے۔اس کہانی میں  ایک اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب بادشاہ کا بیٹا اور ولی عہد شاہزادہ سلیم بھی اسی کنیز کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے جو اس کے باپ کے لیے راحت و آرام کا وسیلہ ہے۔  ای طرف تو جلال الدین اکبر کی ہیبت و سطوت کے سامنے یہ کنیز بے بس ہے تو دوسری طرف شہزادہ سلیم کی پر کشش شخصیت اور  انداز دلربائی نے اسے تذبذب میں  مبتلا کر دیا ہے۔اس کے لیے جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن جاتا ہے۔ایک طرف تو شہنشاہ جلال الدین اکبر اس کنیز کو اپنی ذاتی ملازمہ سمجھتے ہوئے اس پر بلا شرکت غیرے اپنا استحقاق جتاتا ہے تو دوسری طرف  ولی عہد شہزادہ  سلیم کی نگاہ انتخاب اس پر پڑ چکی ہے اور اس کہ اپنی شریک حیات بنانے پر تل گیا ہے۔انارکلی نہایت راز داری سے کام لیتے ہوئے اپنے دونوں  عشاق کے دل کی تسکین کا خیال رکھتی ہے ،لیکن عشق اور مشک کبھی چھپائے نہیں  چھپ سکتے۔یہ راز بالآخر ایک اور کنیز دلآرام کی سازش سے طشت از بام ہو جاتا ہے۔جلال الدین اکبر اور شہزادہ سلیم میں  اس کنیز کے حصول کے لیے محاذ آرائی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ دونوں  کی افواج آمنے سامنے ہو جاتی ہیں  اور ایک جنگ کے بعد شہزادہ سلیم اور انار کلی کو قید کر لیا جاتا ہے۔شہزادہ سلیم تو محفوظ رہتا ہے مگر انار کلی کو جلال الدین اکبر کے احکامات کے تحت زندہ دیوار میں  چنوا دیا جاتا ہے۔اس طرح  اس پوری کہانی کو ایک المیہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے ایک پورے خاندان اور پوری سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔جنرل مان سنگھ جیسے دلیر سپہ سالار اور معاملہ فہم سپاہی،اکبر جیسے سیاست دان اور منتظم کو اس رومانی داستان نے بے بس و لاچار بنا کر اضطراب میں  مبتلا کر دیا۔یہ تمام سوالات ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے لمحہ ء فکریہ ہیں۔وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ زیب داستاں  کے لیے اس داستاں  میں  بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے۔یہ سار ا افسانہ کذب و افترا،بہتان طرازی،الزام تراشی،کر دار کشی اور بدنیتی پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافی کی قبیح مثال ہے۔خود امتیاز علی تاج نے اس  ڈرامے کی حقیقت کے بارے میں  اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو تاریخی واقعات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی افسانوی حیثیت کو واضح کیا ہے۔اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ افسانے کبھی حقیقت نہیں  بن سکتے۔اس فرضی،من گھڑت اور پشتارۂ کذب و افترا  ڈرامے کے پس منظر کے بارے میں  کچھ چشم کشا حقائق پیش خدمت ہیں۔ان کی روشنی میں  تاریخی صداقتوں  کی تفہیم اور درست نتائج  تک رسائی کی ایک ممکنہ صورت پید ا ہو سکتی ہے۔ (اقتباس)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول