صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ادب اور  جمالیات

پروفیسر شکیل الرّحمٰن

ترتیب و تقدیم:  شیخ عقیل احمد

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

جمالیات

اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے اندر رہے۔

اپنے وجود کے آشرم میں !

غالباً یہی وجہ ہے کہ زندگی کے سفر میں اس نے غالبؔ کی طرح ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ زندگی میں رہتے ہوئے بھی زندگی کرنے والوں سے الگ ہے، اسی طرح جس طرح امام تسبیح میں ہوتا ہے مگر شمار میں نہیں ہوتا!

اپنی آنکھوں کے اندر رہتے ہوئے اُسے حیات و کائنات اور اشیاء و عناصر کے جو تجربے حاصل ہوئے اُنھیں وہ بہت قیمتی اور عزیز جانتا ہے۔

اپنے وجود کے آشرم اور اپنی آنکھوں کے اندر نہ ہوتا تو اُسے

ماضی کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ملتا، ماضی کی تاریکی اور روشنی، اس کے تحرک اور رقص اور اس کی سیّال کیفیت سے ناآشنا رہتا، قبائلی، مذہبی، مابعد الطبعیاتی اور مادّی تجربوں کی چمکتی ہوئی روشن لہروں میں بار بار جذب نہ ہوتا۔

وہ یہی سوچتا

ماضی کتنا معنی خیز، کتنا جہت دار اور کس قدر پہلو دار ہے!


’تجربہ‘ جب تک ماضی کا حصہ نہیں بن پاتا اُس وقت تک اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا اور ہر نیا، تازہ اور معنی خیز تجربہ تو ماضی کا ہی حصہ بن کر اپنی تہہ دار معنویت کا احساس دیتا ہے۔


’ماضی‘ ایک کائنات ہے، اس کا مکمل سفر ممکن نہیں ، ایسی صحرا نوردی کا تصوّر بھی آسان نہیں ، صرف وہ ’نگاہ‘ جو آنکھ کے اندر ہوتی ہے ماضی کے بعض علاقوں کا سفر کر لیتی ہے اور اپنی کائنات کے اُن رنگوں کو کسی حد تک پہچان لیتی ہے جو وہاں پہنچ کر نئے رنگوں کی صورتیں اختیار کر لیتے ہیں ۔

ابتداء میں جب اُسے اِس گہری سچائی کا احساس اس طرح ہوا کہ ماضی ایک دوسرا ملک ہے، انتہائی پراسرار اور وہ--- ’وقت‘ اور ’زمانے‘ میں عارضی طور پر زندگی بسر کرتا رہا ہے تو آہستہ آہستہ اپنی اس ’نگاہ‘ کے تئیں بیدار ہونے لگا، اپنی آنکھوں کے اندر رہنے لگا اور اپنی اُس ’نگاہ‘ کی حفاظت کرنے لگا جو آنکھ کے اندر ہوتی ہے---

اسی وجہ سے

اُس کے قبیلے نے اُسے اچانک علیٰحدہ کر دیا، قبیلے کے تمام افراد نے رشتے توڑ لیے، اس بھری دُنیا میں ایسے مسافر سے بھلا کیوں رشتہ قائم کیا جائے جو صرف عارضی طور پر یہاں رہنے آتا ہے اور پھر اپنی دُنیا میں واپس چلا جاتا ہے۔

اور وہ تھا

کہ ماضی کے تجربوں کی روشنی پی رہا تھا، جس قدر پیتا، اُس کی تشنگی اُسی قدر اور بڑھ جاتی۔


اندھیرے میں نوری لکیروں کی تلاش میں سرگرداں رہا، جب بھی کوئی روشن، منوّر اور متحرّک لکیر ایسی ملی تو اسے اپنی نگاہ سے چوم لیا اور انسان اور اُس کی تمام تہذیب کے تئیں کسی نہ کسی سطح پر خود کو بیدار محسوس کرنے لگا۔


اپنی ڈائری میں لکھا تھا:

 ’’میری زندگی میں جانے کتنے ایسے لمحے آئے ہیں

جن لمحوں میں

میں نے خود کو بے حد اجنبی پایا ہے

بھلا ان کو میں نے

کب خلق کیا؟

ایسے لمحے کہاں سے آتے ہیں

جو مجھے اچانک

اجنبی بنا دیتے ہیں ۔‘‘        (ڈائری ۳۰-۳-۷۴، مطبوعہمنطق پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہیگل نے کہا تھا کہ پہلے ہی بتا دینا کہ منطق کیا ہے ممکن نہیں ہے، جب تک ہم اس کی پوری وضاحت کر کے اس کے خدوخال نہیں ابھاریں گے اور  مکمل آگاہی حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک اس بات کا علم ممکن نہیں کہ منطق کیا ہے۔
جمالیات کے تعلق سے بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ ’جمالیات‘ اور  اس کے بنیادی موضوع کے متعلق ہم اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک کہ اس کا علم حاصل نہ ہو جائے اور  اس کے جوہر کی پہچان نہ ہو جائے، بڑی معنیٰ خیز، تہہ دار اصطلاحوں کی تشریحیں اور  تعبیریں ہو سکتی ہیں اور  صرف تشریحوں اور  تفسیروں ہی سے ان کے مفاہیم کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عنوان کی اصطلاحیں سائنسی اصطلاحوں کی طرح ٹھوس اور  صرف خاص رُخ کو پیش کرنے والی اصطلاحیں نہیں ہوتیں۔
جمالیات کی ایک بڑی تاریخ ہے۔ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے جانے کتنے تصورات پیدا ہوئے ہیں، تصورات تبدیل ہوئے ہیں، مختلف تصورات میں مفاہیم کی نئی جہتیں پیدا ہوئی ہیں، خود جمالیات نے جانے کتنی اصطلاحوں کو خلق کیا ہے اور  یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب ایسی صورت ہے تو ظاہر ہے جمالیات کے اندر سے پھوٹے ہوئے سوالات میں بھی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیات کی کوئی ایک تعریف نہیں ہو سکتی، اس کی مختلف تشریحوں سے اس کے ایک سے زیادہ پہلوؤں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ معنی خیز ادبی اور  فنی اصطلاحوں کا حسن تو یہی ہے۔ بعض ادبی اور  فنی اصطلاحیں غالبؔ کی اصطلاح میں ’چراغاں ‘ کی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں اور جانے کتنے مناظر کے ساتھ ’تماشا‘ بن جاتی ہیں۔
یونانی فلسفیوں خصوصاً فیثا غورث وغیرہ نے جمالیات کو فلسفے کا ایک پہلو قرار دیا تھا۔ ارسطو نے اسے حسن، حسن کی فطرت و ماہیت اور  فنون لطیفہ سے قریب تر کیا اور  فن کارانہ تجربے کو جمالیاتی تجربہ سمجھا۔ اور  حقیقت یہ ہے کہ اس منزل سے جمالیات کے باطن سے ایسے سوالات پھوٹنے اور  ابھرنے لگے کہ جن کا تعلق حسن، حسن کی ماہیت اور  تخلیقی عمل اور  فنون لطیفہ کے جوہر سے تھا، حالانکہ اس سے قبل سقراط نے اسے صرف اخلاقیات سے وابستہ کر رکھا تھا اور  افلاطون نے اپنی ’ری پبلک‘ کے اچھے شہریوں کے لیے اسے علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا تھا۔ لیونارڈ نے فطرت کے جلال و جمال اور  فنون کے رشتوں کو سمجھنے کے لیے جمالیات کا سہارا لیا، بوآئیلو (Boileau) نے تخلیقی فن کے معیار کے لیے ’جمالیت‘ کو عزیز جان، بام گارٹن (Baumgarten) نے آرٹ کے ذریعہ دنیا کے حسن کو پانے اور  فن کار اور  حیات و کائنات کے حسی رشتوں کو سمجھنے میں اس کی مدد لی۔ ہیگل نے اسے زندگی اور  آرٹ کے حسن کو سمجھنے کا ذریعہ جانا اور  کائنات کی روح کے عمل اور  تخلیقی آرٹ کی جگہ تلاش کرتے ہوئے جمالیات کو بڑا ذریعہ سمجھا۔ نووالس (Novalis) نے رومانیت کی قدرو قیمت کا اندازہ کرتے ہوئے فن کار کے منفرد جمالیاتی رویے کو اہمیت دی۔ چرنی شوسکی (Chernyshoiski) نے انسان اور  وجود کے رشتے کو سمجھنے کے لیے تمام جمالیاتی کیفیتوں اور  رشتوں کو غیر معمولی اہمیت دی۔ بلنسکی (Belinsky) نے جمالیات کو ’فنی صداقت‘ اور  حقیقت کو سمجھنے کا ایک بڑا ذریعہ بنایا۔ کسی نے کہا کہ سماجی تبدیلیوں اور  انسانی زندگی کی تبدیلی سے جمالیاتی قدریں تبدیل ہو جاتی ہیں، لہٰذا حسن کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔ کسی نے یہ بتایا کہ حسن قدر نہیں جبلت ہے اور جبلت تبدیل نہیں ہوتی۔ قدروں کی تبدیلی سے حسن کو دیکھنے، اسے محسوس کرنے اور  اس سے لطف اندوز ہونے کا انداز بظاہر جتنا بھی بدل جائے بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ایک دبستان اس طرح سوچتا ہے کہ جمالیات فرد کے باطن کا معاملہ ہے۔ تخلیقی عمل میں باطنی جمالیاتی تجربے یقیناً اہم ہیں، لیکن وہ تجربے خارجی جمالیاتی قدروں کی دین ہے۔
ظاہر ہے ایسی صورت میں ’جمالیات‘ کی تعریف ممکن نہیں ہے۔ جمالیات کے تعلق سے یہ تشریحیں، تعبیریں اور  تفسیریں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان تصورات کے علاوہ دوسرے جانے کتنے تصورات موجود ہیں کہ جن کی اہمیت ہے۔ یہ سب جمالیات کی مختلف جہتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ ہر خیال اور  ہر تصور میں کوئی نہ کوئی سچائی موجود ہے۔ ایسے سیکڑوں تصورات سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ جمالیات کی اصطلاح ایک انتہائی معنی خیز معمولی اصطلاح ہے اور  فنون لطیفہ میں اس کی معنویت اپنی تہہ داری کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اور  ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ جمالیات کی دین ہے۔ جمالیات ہی تجربہ کو فنی تجربہ بناتی ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر ہی سے تخلیق ہوتی ہے، جمالیات سے ہی فن کار کے وژن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے، اس سے فنون لطیفہ میں جلال و جمال کا ایک نظام قائم ہوتا ہے۔
فن و ادب کی تنقید تو بنیادی طور پر جمالیاتی ہوتی ہے۔ ناقد اور  فن کار کے جمالیاتی شعور سے رشتہ قائم ہوتا ہے تو فن کا سچا جوہر سامنے آتا ہے۔ فن کار تو اپنے جلال و جمال کے مظاہر ہی پیش کرتا ہے اور  ان مظاہر کو محسوس کرنے اور  ان کی وضاحت و تشریح کرنے کے لیے ناقد کو اپنے جمالیاتی شعور ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ زبان و ادب کا معاملہ ایسا ہے کہ اساطیری، مذہبی، صوفیانہ، فکری، سائنسی، طبی، غرض ہر قسم کی اصطلاحیں جذب ہو جاتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان اصطلاحوں میں جمالیاتی جہتوں کی نشاندہی اور  تخلیق کے جلوؤں اور  فن کار کی شخصیت کے رموز کی نقاب کشائی کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ ایسی اصطلاحیں جو ان کارناموں کو انجام دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں وہ فنی اور  جمالیاتی معنویت کو واضح کرتی ہیں اور اکثر اپنی تہہ دار اور  پہلو دار خصوصیتوں سے قاری کے ذہن کو فن کی عظمت اور  بزرگی اور  جمالیاتی جہتوں سے آشنا کرتی ہیں۔ جمالیاتی انبساط پانے میں مدد کرتی ہیں، فن و ادب کی اپنی اصطلاحیں سماجیات، عمرانیات، معاشیات، نفسیات اور اساطیر و مذاہب کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ مختلف علوم سے اصطلاحیں حاصل ہوتی رہتی ہیں اور  ادبی اقدار کی جمالیاتی وضاحت و تشریح اور  تجزیے کے قابل ہوتی ہیں تو وہ ادبی اور  فنی اصطلاحوں کی صورتیں اختیار کر لیتی ہیں۔
بام گارٹن (۱۷۱۴ء-۱۷۶۲) نے سب سے پہلے فلسفۂ  حسن کے لیے Aesthetics کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ کہا تھا کہ یہ فلسفے کا ایک علاحدہ مستقل موضوع ہے۔ اس اصطلاح کا مآخذ یونانی لفظ Aisthetikos ہے۔ اس کے معنی ایسی شئے کے ہیں کہ جس کا ادراک حواس کے ذریعہ ہو۔ بام گارٹن نے اس میں احساس اور  ادراک دونوں کو اہمیت دی اور  اسے ایک علم سے تعبیر کیا۔ جمالیات کی تاریخ اپنے نام سے زیادہ قدیم ہے، قدیم ترین علماء نے حسن، فن اور  فنی صداقت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یونانی جمالیات اور  ہندوستانی جمالیات کی اپنی تہہ دار تاریخ  ہے۔ ہندوستان کے قدیم اچاریوں نے ’بھَو‘ یعنی ذہنی کیفیات، ’رَس‘ یعنی جلال و جمال کے عرفان کا جوہر، جمالیاتی تجربوں کی فنی ترسیل کی خوشبو اور  جمالیاتی انبساط ’آنند‘ کا جادو، آہنگ اور آہنگ کی وحدت اور  ’النکار‘ یعنی اظہار کے حسن وغیرہ پر جس شدت سے اظہار خیال کیا ہے، جمالیات کی تاریخ میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔
اس ادبی اصطلاح کی معنویت پھیلتی جا رہی ہے اور  اس کی نئی جہتیں نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ تاریخی جوہروں سے معمور انسانی اقدار، فن کاروں کی تخلیقات، احساس و ادراک، کائنات کے جلال و جمال کے مظاہر، شعور و عرفان، آسودگی اور  انبساط، پیکر تراشی، آواز اور  اس کی گونج، اشارتی مفاہیم، رمزیت و اشاریت، ڈرامائی خصوصیات، فضا آفرینی، سچائی کی صورت کی تبدیلی، شعوری اور  لاشعوری کیفیات، خارجی اور  باطنی تحرکات کی وحدت، تخلیقی عمل کی پُر اسرار کیفیتیں، تخیل اور  ’وژن‘، تجربوں کا حسن اور  تخلیق یا کلام کی آرائش و زیبائش، سب اس کے دائرے اور  اس کی گرفت میں ہیں۔ جمالیات کی مدد کے بغیر فنون لطیفہ کا مطالعہ ہی ممکن نہیں ہے۔ جمالیات تو فنون کی روح ہے۔ اس اصطلاح کا سب سے صاف اور  واضح مفہوم یہ ہے کہ فن کار کے جمالیاتی شعور نے حیات و کائنات کے جلال و جمال سے کس نوعیت کا تخلیقی رشتہ قائم کیا ہے اور  جو تخلیق سامنے آئی ہے اسکا حسن کیا ہے، کیسا ہے۔ ایسی دریافت سے جہاں سماج کے جمالیاتی مزاج اور  رجحان کی پہچان ہوتی ہے، وہاں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ فن کار کے جمالیاتی تجربوں نے سوسائٹی کے باطن میں کس نوعیت کی تحریک پیدا کی ہے۔ کبھی کبھی تو فن کاروں کے ایسے تجربوں کی تحرک سے سماج کا مزاج ہی بدل جاتا ہے۔ رجحان اور  رویے میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہندوستان کی مجسمہ سازی کی تاریخ اس کی عمدہ مثال ہے۔
جمالیات کا تعلق انسان اور  اس کے سماج سے ہے، انسان کے حواس خمسہ سے ہے، اس کے شعور اور  لاشعور سے ہے۔ وہ عمر بھر حسن کی تلاش ہی میں مصروف سفر رہا ہے، خالق کائنات کا حسن ہو یا سماجی زندگی کا، اپنی ذات کا حسن ہو یا دوسرے افراد کا، حیات و کائنات کا حسن ہو یا فطرت کے جلال و جمال کا، زندگی کا حسن ہو یا موت کا، فنونِ لطیفہ میں تو اس کے تجربے پیش ہوئے ہیں۔ وہ ’تری مورتی‘ ہو یا ’نت راج‘، وینس کا پیکر ہو یا بدھ کا مجسمہ، تاج محل، اجنتا اور  ایلورا ہو یا حافظ، کبیر اور  غالبؔ، ڈیوائن کامیڈی، میک بتھ اور  شاہنامہ فردوسی ہو یا عجمی اور  غل آرٹ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اب بھی جمالیات کا ذکر آتا ہے تو بعض حضرات اسے علم سماجیات یا علم عمرانیات یا علم نفسیات کی طرح، تاریخی تسلسل میں صرف چند علمائے جمالیات کے نظریات کی روشنی ہی میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظریات یقیناً اہم ہیں لیکن یہی سب کچھ نہیں ہیں۔ اب جمالیات کی اصطلاح کا معاملہ دوسری تمام ادبی اور  فنی اصطلاحوں سے مختلف ہے۔ اس اصطلاح نے جہاں فنونِ لطیفہ کی روح کی گہرائیوں کو سمجھانا شروع کیا ہے وہاں ماضی کے فنون کو دیکھنے کے لیے نیا وژن بھی عطا کر دیا ہے۔ ماضی کے فنون کے جلال و جمال کو دیکھنے، پرکھنے اور  ان سے جمالیاتی انبساط پانے کا انداز ہی تبدیل کر دیا ہے۔ جمالیات نے ماضی کے فنون کے نئے جمالیاتی انکشافات کے لیے اکسایا اور بے قرار کیا ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی فنونِ لطیفہ کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اتنا بڑا انقلاب جو فنونِ لطیفہ کو دیکھنے کے لیے ایک ہمہ گیر ’وژن‘ عطا کرنے نہیں آیا تھا۔ اس کے لیے جمالیات کو ایک سائنس یا ایک ایسا علم کہ جس کے حدود مقرر ہوں سمجھنا غلط ہے۔ یہ اصطلاح ایک ایسا نقطہ یا بندو ہے کہ جس میں تمام مظاہر سمٹ آتے ہیں اور  تمام مظاہر کے رنگ روپ کو سمیٹ کر سکڑتا ہے تو ایک نقطہ بن جاتا ہے۔ ایک معنی خیز تہہ دار اصطلاح!
جمالیات کی اصطلاح نے یہ احساس عطا کیا ہے کہ جمالیات فنونِ لطیفہ کی روح ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر، جمالیاتی نقطۂ  نگاہ۔ وجدان و عرفان، جمالیاتی شخصیت و شعور، جمالیاتی موضوع اور  طرزِ ادا کے بغیر کسی فن کا کوئی تصور پیدا نہیں ہو سکتا۔ ہر بڑے تخلیقی فن کار کا ایک اپنا جمالیاتی نظام ہوتا ہے جو اپنی جمالیاتی روایات اور  اپنے عہد کے جمالیاتی نظام سے گہرا تخلیقی رشتہ رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عہد کے جمالیاتی نظام سے کسی تخلیقی فن کار کا اپنا جمالیاتی نظام قائم ہوتا ہے۔ حسن کا احساس ہی فن کی تخلیق کا باعث بنتا ہے اور  اس کا بنیادی مقصد جمالیاتی سطحوں پر عرفان عطا کرنا اور  مسرت سرمدی سے آشنا کرتا ہے، المیہ یا ٹریجڈی بھی اپنے حسن سے متاثر کرتی ہے۔ بڑے فن کار اپنی جمالیاتی فکر و نظر اور  اپنے ’وژن‘ ہی سے ٹریجڈی کو حسن کا جلوہ دیتا ہے۔ ہر اچھی اور  بڑی تخلیق جمالیاتی ہوتی ہے۔ معاشرتی، معاشی یا نفسیاتی نہیں ہوتی۔ اگرچہ معاشرتی، معاشی اور  نفسیاتی اقدار و عوامل کے تحرک ہی سے کوئی تجربہ تخیل کا جوہر بنتا ہے۔ جمالیات صرف کروچے، ہیگل، کانٹ، بام گارٹن، ینگ، شلر، وائٹ ہیڈ، برک اور  ہیوم وغیرہ کے تصورات و خیالات کا نام نہیں، اگرچہ یہ اور ایسے جانے کتنے علما نے جمالیات کی گرہیں کھولی ہیں اور بصیرتیں عطا کی ہیں۔ فنون لطیفہ کی روح تک رسائی ایسے خیالات سے یقیناً مختلف انداز سے ہوتی ہے، لیکن جب فنون لطیفہ کے جوہروں کی پہچان کا معاملہ پیشِ نظر ہوتا ہے تو قاری یا ناقد کی اپنی جمالیاتی بصیرت ہی فن کاروں کی جمالیات سے تخلیقی رشتہ قائم کرتی ہے اور  اسی رشتے سے جمالیاتی انکشافات ہوتے ہیں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول