صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ابو حنیفہؒ
سیرۃ النعمان علامہ شبلی نعمانیؒ
تذکرۃ النعمان علامہ محمد بن یوسف دمشقیؒ
جمع و ترتیب :عبد الباسط قاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
علم فقہ کی تحصیل کا پسِ منظر
شروع شروع میں تو امام صاحبؒ علمِ کلام کے بہت دلدادہ رہے لیکن جس قدر عمر اور تجربہ بڑھتا جاتا تھا ان کی طبیعت رکتی جاتی تھی خود ان کا بیان ہے کہ ’’ آغازِ عمر میں اس علم کو سب سے افضل جانتا تھا، کیونکہ مجھ کو یقین تھا کہ عقیدہ و مذہب کی بنیاد انہی باتوں پر ہے۔ لیکن پھر خیال آیا کہ صحابہ کبارؓ ان بحثوں سے ہمیشہ الگ رہے۔ حالانکہ ان باتوں کی حقیقت ان سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا۔ ان کی توجہ جس قدر تھی، فقہی مسائل پر تھی اور یہی مسائل وہ دوسروں کو تعلیم دیتے تھے۔ ساتھ ہی خیال گزرا کہ جو لوگ علمِ کلام میں مصروف ہیں ان کا طرزِ عمل کیا ہے۔ اس خیال سے اور بھی بے دلی پیدا ہوتی کیونکہ ان لوگوں میں وہ اخلاقی پاکیزگی اور روحانی اوصاف نہ تھے جو اگلے بزرگوں کا تمغہ امتیاز تھا۔
اسی زمانہ میں ایک دن ایک عورت نے آ کر طلاق کے سلسلے میں مسئلہ پوچھا۔ امام صاحب خود تو بتا نہ سکے۔ عورت کو ہدایت کی کہ امام حمادؒ جن کا حلقۂ درس یہاں سے قریب ہے جا کر پوچھے، یہ بھی کہہ دیا کہ حماد جو کچھ بتائیں مجھ سے کہتی جانا۔ تھوڑی دیر کے بعد آئی اور کہا کہ حماد نے یہ جواب دیا۔ امام صاحبؒ فرماتے ہیں۔ مجھ کو سخت حیرت ہوئی اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور حماد کے حلقۂ درس میں جا بیٹھا۔
حمادؒ کی شاگردی
حمادؒ کوفہ کے مشہور امام اور استادِ وقت تھے۔ حضرت انسؓ سے جو رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص تھے،حدیث سنی تھی اور بڑے بڑے تابعین کے فیضِ صحبت سے مستفید ہوئے تھے۔ اس وقت کوفہ میں انہی کا مدرسہ مرجعِ عام سمجھا جاتا تھا۔ اس مدرسۂ فکر کی ابتداء حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کے شاگرد شریحؒ، علقمہؒ اور مسروقؒ اس مدرسہ کے نامور ائمہ ہوئے جن کا شہرہ اس وقت تمام دنیائے اسلام میں تھا۔ پھر ابراہیم نخعیؒ اور ان کے بعد حمادؒ تک اس کی امامت پہنچی۔
حضرت علیؓ و عبد اللہ بن مسعودؓ سے فقہ کا جو سلسلہ چلا آتا تھا اس کا مدار انہی پر رہ گیا تھا۔ ان وجوہ سے امام ابو حنیفہؒ نے علمِ فقہ پڑھنا چاہا تو استادی کے لئے انہی کو منتخب کیا۔ ایک نئے طالب علم ہونے کی وجہ سے درس میں پیچھے بیٹھتے۔ لیکن چند روز کے بعد جب حماد کو تجربہ ہو گیا کہ تمام حلقہ میں ایک شخص بھی حافظہ اور ذہانت میں اس کا ہمسر نہیں ہے تو حکم دے دیا کہ ’’ ابو حنیفہؒ سب سے آگے بیٹھا کریں۔
حضرت حمادؒ کے حلقۂ درس میں ہمیشہ حاضر ہو تے رہے۔ خود امام صاحبؒ کا بیان ہے کہ ’’میں دس برس تک حمادؒ کے حلقہ میں ہمیشہ حاضر ہوتا رہا اور جب تک وہ زندہ رہے ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہیں چھوڑا۔ انہی دنوں حمادؒ کا ایک رشتہ دار جو بصرہ میں رہتا تھا انتقال کر گیا تو وہ مجھے اپنا جانشین بنا کر بغرض تعزیت سفر پر روانہ ہو گئے۔
چونکہ مجھ کو اپنا جانشین مقرر کر گئے تھے، تلامذہ اور اربابِ حاجت نے میری طرف رجوع کیا۔ بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن میں استاد سے میں نے کوئی روایت نہیں سنی تھی اس لئے اپنے اجتہاد سے جواب دیئے اور احتیاط کیلئے ایک یادداشت لکھتا گیا۔ دو مہینہ کے بعد حماد بصرہ سے واپس آئے تو میں نے وہ یادداشت پیش کی۔ کل ساٹھ مسئلے تھے، ان میں سے انہوں نے بیس غلطیاں نکالیں، باقی کی نسبت فرمایا کہ تمہارے جواب صحیح ہیں۔ میں نے عہد کیا کہ حمادؒ جب تک زندہ ہیں ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہ چھوڑوں گا۔
متعدد طریق سے یہ بھی مروی ہے کہ آپؒ نے قرأت امام عاصمؒ سے سیکھی جن کا شمار قراءِ سبعہ میں ہو تا ہے اور انہیں کی قرأت کے مطابق قرآن حفظ کیا۔
حدیث کی تحصیل
حمادؒ کے زمانہ میں ہی امام صاحبؒ نے حدیث کی طرف توجہ کی کیونکہ مسائلِ فقہ کی مجتہدانہ تحقیق جو امام صاحبؒ کو مطلوب تھی حدیث کی تکمیل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ لہذا کوفہ میں کوئی ایسا محدث باقی نہ بچا جس کے سامنے امام صاحبؒ نے زانوئے شاگردی تہ نہ کیا ہو اور حدیثیں نہ سیکھیں ہوں۔ ابو المحاسن شافعیؒ نے جہاں ان کے شیوخِ حدیث کے نام گنائے ہیں، ان میں ترا نوے (۹۳) شخصوں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ لوگ کوفہ کے رہنے والے یا اس اطراف کے تھے۔ اور ان میں اکثر تابعی تھے۔
مکہ کا سفر
امام
ابو حنیفہؒ کو اگرچہ ان درسگاہوں سے حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا۔ تاہم
تکمیل کی سند حاصل کر نے کے لئے حرمین جانا ضروری تھا جو علومِ مذہبی کے
اصل مراکز تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہؒ مکہ پہنچے۔ درس و تدریس کا
نہایت زور تھا۔ متعدد اساتذہ جو فنِ حدیث میں کمال رکھتے تھے اور اکثر
صحابہؓ کی خدمت سے مستفید ہوئے، انکی الگ الگ درسگاہ قائم تھی۔ ان میں عطا
ئؒ مشہور تابعی تھے جو اکثر صحابہؓ کی خدمت میں رہے اور ان کی فیضِ صحبت
سے اجتہاد کا رتبہ حاصل کیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، ابن عمرؓ، ابن
زبیرؓ، اسامہ بن زیدؓ، جابر بن عبداللہؓ، زید بن ارقمؓ، ابو دردائؓ،
ابوہریرہؓ اور بہت سے صحابہ سے حدیثیں سنی تھیں۔ مجتہدین صحابہؓ ان کے علم
و فضل کے معترف تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ ’’عطاء بن رباح کے
ہوتے ہوئے لوگ میرے پاس کیوں آتے ہیں؟‘‘ بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً اوزاعی،
زُہریؒ، عمرو بن دینارؒ انہی کے حلقۂ درس سے نکل کر استاد کہلائے۔
امام
ابو حنیفہؒ استفادہ کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ روز بروز امام
صاحبؒ کی ذہانت و طباعی کے جوہر ظاہر ہوتے گئے اور اس کے ساتھ استاد کی
نظر میں آپ کا وقار بھی بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ جب حلقۂ درس میں جاتے تو
عطاء اوروں کو ہٹا کر امام صاحبؒ کو اپنے پہلو میں جگہ دیتے۔ عطائؒ ۱۱۵ھ
تک زندہ رہے اس مدت میں امام ابو حنیفہؒ ان کی خدمت میں اکثر حاضر رہے اور
مستفید ہوئے۔
عطاؒ ء کے سوا مکہ معظمہ کے اور محدثین جن سے
امام صاحبؒ نے حدیث کی سند لی۔ ان میں عکرمہؒ کا ذکر خصوصیت سے کیا جا
سکتا ہے۔ عکرمہؒ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے غلام اور شاگرد تھے۔ انہوں نے
نہایت توجہ اور کوشش سے ان کی تعلیم و تربیت کی تھی یہاں تک کہ اپنی زندگی
ہی میں اجتہاد و فتویٰ کا مجاز کر دیا تھا۔ امام شعبیؒ کہا کرتے تھے کہ
قرآن کا جاننے والا عکرمہؒ سے بڑھ کر نہیں رہا۔ سعید بن جبیرؒ سے کسی نے
پوچھا کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی عالم ہے فرمایا: ہاں! عکرمہؒ۔
***