صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


غَلَبَۃِ الدَّ یِن
اور دوسرے مضامین

ابو عمار سلیم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

غَلَبَۃِ الدَّ یِن (اقتباس)

ہمارے آقا و مولا سید المرسلین خاتم النبین صادق الوعد و الامین حضرت احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی ایک بہت اہم دعا ہے جو آپ نے اپنی امت کو تعلیم کی ہے اور جو اکثر و بیشتر نمازوں کے بعد دہرائی بھی جاتی ہے۔ ہم میں سے اکثر کو یہ دعا یقیناً زبانی یاد بھی ہو گی اور ہم اس کو دہراتے بھی ہوں گے۔ اس دعا کا ایک حصہ کچھ اس طرح ہے " اَللّٰھُمَّ اِنّی اَعُو ذُ بِکَ مِن غَلَبَة الدَّیِنِ وَ قَھرُ الرّجَال" مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں عربی زبان سے کوئی واقفیت نہیں ہے اس لیے ہمارے ہاتھوں اس دعا کا حال بھی و ہی ہے جیسا کہ ہم دیگر قرآنی آیات کا کرتے ہیں۔

طوطے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ ہم انتہائی سرعت کے ساتھ اپنی زبانوں سے ادا کر دیتے ہیں مگر نہ اس کا مطلب سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے الفاظ ہمارے دلوں پر کوئی نقش چھوڑتے ہیں۔  اس پیاری سی دعا کا مطلب کچھ یوں ہے کہ "اے  اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے قہر و غضب سے۔" اس کے ترجمہ کی طرف اگر بغور دیکھیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس میں راہنمائی کے بڑے بہترین اصول ملیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ یعنی "اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں "  والا معاملہ نظر آتا ہے۔ حضور نبی اکرم خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کی بعثت سے پہلے کا تمام عربی ادب اپنے اندر انداز بیان کی رنگینی اور زبان کی مکمل چاشنی کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر ادبی محاسن لیے ہوئے نظر آتا ہے جس کا فقدان دیگر زبانوں میں بہت نمایاں ہے۔ اسی لیے عرب اپنے علاوہ دیگر تمام دنیا کو (عجمی) گونگے سمجھتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ عرب کا یہ معاشرہ جس میں پڑھنے لکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا بلکہ اس وقت تک ان کا رسم الخط بھی نہ تو متعین اور مدون ہوا تھا اور نہ ہی ان کے شعراء و ادیبوں کا کام مخطوط شکل میں موجود تھا۔ سب کا سب لوگوں کے سینوں میں محفوظ تھا اور اسی طرح سینہ بہ سینہ آگے چلتا جاتا تھا مگر اس کے بیان میں اور نہ ہی اس کے انداز میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی تھی۔ شائد کہ الفاظ کو محفوظ کرنے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے حافظے کو بہت وسیع کر دیا تھا اور تمام کا تمام کلام ان میں سے اکثر لوگوں کو ازبر تھا۔ اسلام کی آمد سے کچھ ہی عرصہ قبل عربی رسم الخط کا رواج ہوا تھا اور لوگ پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ مگر جب قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا تو پھر تو گویا عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا جو اس قدر اثر انگیز تھا کہ پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔  اور وہ تھا گفتگو اور بیان کا ایک نیا انداز۔ ایک نئی طرز کا اجرا جس میں کم سے کم الفاظ میں معانی کے پورے کے پورے دفتر بند ہوں۔  جملوں کی ایسی بناوٹ اور ایسے الفاظ کا چنا ؤ جو تھوڑے ہوں ، اختصار پیدا کریں مگر جب معنی سامنے آئیں تو ایک موجیں مارتا ہوا سمندر ہو۔ پورے کا پورا قرآن مجید اسی انداز گویائی کا آئینہ دار ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ اس وقت کا معاشرہ باوجود قرآن کے اس واشگاف چیلنج کے کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر لے آ ؤ ، بڑے بڑے شعراء  اور زبان دانی کا دعویٰ کرنے والے گونگے ہو گئے۔ سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔  سب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ " محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم جو کلام سناتے ہیں وہ اس دنیا کی چیز ہے ہی نہیں۔  نہ یہ شاعری ہے نہ نثر ، نہ جادو کے الفاظ ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کہانت کی بات ہے۔ یہ تو ایسا کلام ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔" اور پھر قرآن مجید فرقان حمید کی اس جادو بیانی کے ساتھ ساتھ آقائے دوجہاں افضل البشر سید المرسلین افصح اللسان صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی اپنی زبان دانی اور زور بلاغت نے مل کر ایک نئے دور کی ابتدا کی۔ آج ہمارے بزرگوں کی کاوشوں اور سمجھداریوں کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کی تمام گفتگو اور تقاریر و وعظ کا ذخیرہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ان کو زبان دان حضرات دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو اس کے اختصار کے باوجود اس میں معنی کی گہرائی کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔  کم سے کم الفاظ میں اپنا مطلب بیان کرنے کا اس سے بہتر کوئی اندازہ مقرر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اوپر درج شدہ دعا کے الفاظ میں بھی اختصار کے باوجود عقل و دانش کے گوہر پوشیدہ ہیں۔  آیئے ہم ان کا جائزہ لے کر اس دعا کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کو جان لینے کے بعد اس دعا کو زیادہ پر اثر طریقہ سے ادا بھی کریں اور اس دعا میں پوشیدہ پیغام کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوار لیں۔

دعا کے الفاظ میں اللہ کی پناہ مانگی جا رہی ہے قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر سے۔ لوگوں کا قہر و غضب اور ان کی زیادتیوں اور چیرہ دستیوں سے ہم سب لوگوں کا واسطہ وقتاً فوقتاً پڑتا ہی رہتا ہے۔ معاشرہ کے قوی الجسم ہوں یا قوی المال ہوں۔  رتبہ میں بڑے ہوں یا دماغی خناث میں بڑھے ہوئے ہوں اپنے سے کمزوروں اور کم حیثیت اور ناتواں لوگوں پر بے محابہ ظلم و ستم کرتے ہیں۔  اکثر ظلم ہم دیکھتے بھی ہیں اور بہت سے مظالم ہم اپنی جانوں پر برداشت بھی کرتے ہیں۔ ان مظالم اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کی چیر پھاڑ ہمیں بری بھی لگتی ہے اور ہم ان سے اللہ کی پناہ بھی مانگتے ہیں۔  اس تناظر میں یہ دعا ہمیں سمجھ میں تو آتی ہے اور جہاں ایسے ظلم و ستم سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے وہیں اس بات کا اعادہ بھی ہے کہ ہم خود ایسے کسی ظلم کے مرتکب نہ ہوں اور لوگ ہماری زیادتیوں سے بچے رہیں۔  یہاں تک تو اس دعا کے حصے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔  مگر دعا کے پہلے حصے سے ہم کچھ زیادہ نامانوس ہیں۔  سمجھتے تو ہیں کہ قرض سے پناہ مانگی جا رہی ہے ، مگر کیوں ؟۔ قرض لینا دینا انسانی معاشرہ میں ہمیشہ سے جاری و ساری ہے یہاں تک ہمارے آقا و مولا  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلمنے بھی اپنی حیات مبارکہ میں قرض لیا ہے اور ایسے کئی واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔  تو پھر ہمیں کیوں قرض سے پناہ مانگنے کی دعا تعلیم کی جا رہی ہے۔

جہاں تک قرض کا تعلق ہے یہ انسانی ضرورت سے منسلک ہے اور اکثر و بیشتر اس کا تعلق روپیہ پیسہ کے حصول سے ہوتا ہے۔ انسان جب اپنی آمدن یا پس اندازی اور اپنی موجودہ حاجت اور ضرورت کے درمیان فرق محسوس کرتا ہے تو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل سے بڑھ کر دائیں بائیں سے حاصل کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔ عزیز و اقارب کی طرف رجوع کرتا ہے یا پھر دوست و احباب کے آگے اپنی حاجت رکھتا ہے اور جب کہیں سے کچھ نہ ملے تو پھر ایسے ذرائع ڈھونڈھتا ہے جس کے ذریعہ سے اس کی مراد پوری ہو جائے۔ادھار لیتا ہے کہ وقت مقررہ پر ادائیگی کر دے گا اور ضرورت ہو تو کچھ گروی بھی رکھ دیتا ہے تاکہ قرض دینے والے کے پاس ضمانت موجود رہے۔ اور جب اس کو اس کی ضرورت کے مطابق رقم مل جاتی ہے تو اپنی حاجت کی تکمیل کر لیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرض لینا گناہ ہے یا کوئی غیر اخلاقی حرکت ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ انسانی معاشرہ میں اکثر و بیشتر انسان اپنی ضروریات کی خاطر دوسروں کی مدد کا محتاج ہو جاتا ہے۔پہلے عزیز و اقارب کی طرف دیکھتا ہے پھر دوست و احباب کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور جب کچھ بھی ممکن نہ ہو تو اپنی کوئی چیز فروخت کرتا ہے یا ضمانت کے طور پر رہن رکھ دیتا ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ ہو پائے تو پھر ایک راستہ سود پر رقم کی وصولی کا ہوتا ہے۔ کوئی ضرورت مند اوپر درج شدہ کسی بھی طریقہ سے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو جائے تو اب جو صورت حال ہو گی یعنی اس قرض کی ادائیگی اور حسب وعدہ اس کی واپسی۔ اسی صورت حال کا اس دعا میں تذکرہ ہے۔ یعنی قرض کی واپسی کا جو دبا ؤ انسان پر رہتا ہے اس کے غلبہ سے بچنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کے آگے ہاتھ پھیلایا جا رہا ہے۔  اس کی مدد مانگی جا رہی ہے کہ اللہ اس بوجھ سے سبکدوش کرے اور حسب وعدہ بغیر کسی جھنجھٹ کے فارغ ہو جایا جائے۔ اور اگر بین السطور غور کیا جائے تو اس خواہش کا اظہار بھی موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی کسی صورت حال سے دوچار ہی نہ کرے کہ ہمیں قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور ایسا ناروا بوجھ ہماری جانوں پر آ پڑے جس کی ادائیگی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کر دے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول