صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


 ابرِ رحمت

جلد دوم

مصنف:شیخ غلام محی الدین
  تحقیق و ترتیب: کلیم احسان بٹ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

لاہوری شاہ

     ان دنوں شہر سیالکوٹ میں جناب لاہوری شاہ صاحب کا بڑا چرچہ (چرچا) تھا۔ عامۃ الناس کا رجوع اس طرف ہو رہا تھا۔ ایک دفعہ آپ جلالپور ہوتے ہوئے موضع فتح پور میں گئے۔ وہاں احمد گوجر زمیندار آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھا۔ آپ مستانہ وار طریق رکھتے اور دیوانہ وار باتیں کرتے تھے۔ اور رموزات(رموز) میں سائلوں کا جواب دیا کرتے تھے۔ مہینہ دو مہینہ فتح پور کے پاس ڈلی میں پڑے رہتے تھے۔ ریگ آپ کو پسند تھی۔ پھر سیالکوٹ چلے جاتے۔ وہاں سے چلتے تو لب دریائے چناب مہینوں ریت میں گزار دیتے۔ سیالکوٹ میانہ پورہ سے مغرب میں ایک پختہ خانقاہ تھی (جس میں) رہتے تھے۔ ایک دن شہر میں پڑے ہوئے ایک گھر میں جو پٹھان کہلاتے تھے، داخل ہوئے۔ ان کی مستورات پردہ میں تھیں۔ آپ ان میں جا بیٹھے۔ اتنے میں گھر کا مالک آ گیا۔ جو آپ کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیا۔ شاید اس نے کوئی گستاخی ہی کی ہو گی۔ آپ خاموش نکل آئے۔ اور ڈیرے پر پہنچے ہوں گے کہ جو گھر کی مالکہ بہت سے لڑکوں لڑکیوں کی ماں تھی، اس پر دیوانگی طاری ہو گئی۔ بال کھول دیے۔ باہر بھاگنے لگی۔ حالانکہ تن و توش سے بڑی بھاری تھی۔ تمام ننگ و ناموس کو خیر باد کہہ دیا۔ اپنے بیگانے سے آشنائی توڑ دی۔ لاہوری شاہ لاہوری شاہ کا نام زور زور سے لینے لگ گئی۔ خاندان پٹھانوں کا بھاری ننگ و ناموس کا مالک تھا۔ وہاں ایک کی سنائی نہ دی۔ لاچار ہوئے۔ اس کو باندھا۔ لیکن کب تک؟ وہ بھی آخر کھول دیا۔ وہ بھاگی بھاگی جناب شاہ صاحب کے حضور میں آ گئی۔ بڑا بھاری وجود اور درمیانہ عمر۔ آپ جدھر جاتے پیچھے پیچھے ہو لیتی۔ ایک دم بھی جدا نہ ہوتی۔ جس سے شاہ صاحب کی عام شہرت ہو گئی۔ لوگ ہزاروں تماشہ دیکھنے آتے۔ آپ کی عمر بھی اس وقت بڑھاپے میں تھی۔ اور یہ بھی درمیانہ عمر کی عورت تھی۔ ساتھ ساتھ چلنا شروع کیا۔ آپ خاموش رہتے اور آپ سے آپ باتیں کیا کرتے تھے۔ اس عورت کا نام نصیبن تھا۔ آپ اسے جندی جندی کہہ کر پکارنے لگ گئے۔ تب سے بات عام لوگوں میں مشتہر ہو گئی۔ تو پھر کیا تھا؟لوگ عقیدت مند آنے شروع ہوئے کہ ہمیں اپنے حلقہ بگوش میں لیویں۔ اور اپنے نام لیواؤں میں جگہ دیویں۔ آپ سر، مونچھیں، بھنویں چٹ کرایا رکھتے تھے۔ جو عقیدت مند بننا چاہتا اس پر بھی یہی حال وارد کرتے۔ فوراً حجام منگوا کر صفایا کروا دیتے۔ یہاں تک  کہ بڑے بڑے اکا بر، دنیادار اور عزت داروں تک نے یہ طریق و یہ صورت اختیار کی۔ اب جدھر جاتے پانچ سات سر منہ منڈھے ساتھ ہوتے۔ ایک نیارا ہی رنگ دکھائی دیتا۔ مائی جندی بھی ساتھ ساتھ ہوتی۔ جو مشکل سے قدم قدم اٹھاتی کیونکہ وجود اس کا بھاری تھا۔ میل دو میل چلنا جانتی نہ تھی۔ اب جدھر شاہ صاحب تشریف لے جاتے اسے جانا لازمی ہوتا۔ ایک دم امن نہ آتا۔ البتہ جب چند قدم آپ (شاہ صاحب) آگے نکل جاتے اور مائی جندی پیچھے رہ جاتی تو پھر شاہ صاحب بولاتے(بلاتے) ’’آ جندیے آ ‘‘ وہ آہستہ آہستہ چلی آتی۔ تو پھر آپ واپس ہو کر ساتھ لاتے۔ جب عام مرید ہو گئے تو شاہ صاحب فتح پور بھی تشریف لائے۔ ڈلی میں جندی کو لیے پھرنے لگے۔ پر اس کے سر کے بال کٹوا دیے۔ گرم ریگ میں دبا دیتے کہ تمھیں پختہ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ عمل کیا کرتے تھے۔ ایک ہی چارپائی پر دونوں بیٹھتے اور ایک ہی پر رات کو سو جاتے تھے۔ لیکن دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ البتہ مائی صاحبہ جندی کا یہی وظیفہ ہوتا کہ میرا لاہوری شاہ۔ ایک دن غلام محمد نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرے والد پہلے ایام میں سیالکوٹ لاہوری شاہ صاحب کے پاس جایا کرتے تھے۔ حالانکہ اس وقت لاہوری شاہ صاحب (کو) چنداں لوگ نہ جانتے تھے۔ جب میں نے یہ سنا تو غلام محمد کو ہمراہ لیا اور سیالکوٹ لاہوری شاہ صاحب کے مکان پر دونوں چلے گئے۔ دیکھا کہ عام آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن میں بات کرنی میں نے مناسب نہ سمجھی۔ دل میں خیال کیا کہ اگر شاہ صاحب ان آدمیوں سے علیحدہ ہو کر میری بات سنیں تو ان کی مہربانی ہو گی۔ آپ خاموشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آہستہ آہستہ آگے آگے چلنے لگے۔ ہم دونوں ساتھ ہولیے۔ جب پل سڑک پر جو سیالکوٹ سے جلال پور کو آتی ہے اس جگہ پہنچے تو میں نے کہا ’’جناب غلام محمد کا باپ بھی پہلے حضور کے حلقہ بگوشوں میں تھا۔ آپ اس کو بھی اپنے یہیں جگہ دیجیے اور اپنے زمرہ میں داخل کیجیے۔ ‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ یہ میری مانتا نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ ضرور مانے گا۔ آپ اسے اپنا بنا دیں (لیں) ۔ شاہ صاحب نے منظور کر لیا۔ اسی وقت واپس ڈیرے پر آ کر اس کی بھی داڑھی مونچھ اور بھنووں کا صفایا کروایا۔ میرے دل کو بہت خوشی ہوئی۔ رات رہے اور جلالپور چلے آئے۔ اب شاہ صاحب بھی سال میں دو دفعہ جلالپور و فتح پور وغیرہ آتے۔ دس دس پندرہ پندرہ دن قیام ہوتا۔ بہت شغل رہتا۔ ہمارے ڈیرے پر بھی  مع مائی صاحبہ قیام فرماتے۔ یہ بھی ایک نیا مے خانہ جاری ہوا۔ جس میں سینکڑوں لوگ داخل ہونے لگے۔ لوگوں کی بہیڈ (بھیڑ) چال ہوتی ہے۔ رسم و رواج کو جلد اختیار کرتے ہیں۔ ایسے ہی (لوگ) شاہ صاحب (کی طرف) بھی رجوع ہوئے بصورت پیران مروجہ اپنی روش کو اختیار کیا۔ ایک روز مکان غلام محمد کے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ خوب مجلس آراستہ تھی۔ میاں حامد علی صاحب مع دوسرے احباب حاضر تھے۔ ادھر شاہ صاحب  چارپائی پر مع مائی جنداں جلوہ افروز تھے۔ غلام محمد پروانہ وار فدا ہو رہا تھا۔ میاں صاحب کی خصوصاً لمبی داڑھی تھی۔ اور بھی اپنی اپنی جگہ ریش دار تھے۔ شاہ صاحب بولے کہ دیکھو کہ لوگوں نے کیسے اپنے دروازوں پر کوڑا جمع کر رکھا ہے۔ کیوں نہیں اٹھاتے اور مصفا ہوتے؟میں سیالکوٹ جا کر کیا کروں گا؟ بتاؤں گا کہ تو کیا کر کے آیا ہے؟ یہ باتیں کچھ رمز دار تھیں۔ میں نے سمجھا کہ آپ کوئی مرید نہ بننے سے نا خوش ہو رہے ہیں۔ نبی بخش حجام حاضر تھا۔ میں نے کہا کہ تم رچھانی سے کپڑا شاہ صاحب کے نزدیک کھڑے ہو جاؤ۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ تو آپ بولے کہ دیکھو اب حجام بھی بھیجا گیا ہے۔ پھر بھی کوڑا نہیں اٹھاتے۔ سب خاموش سنتے رہے۔ میں نے کہا حضرت ایک ایک سے علیحدہ علیحدہ کہیں۔ میری غرض یہ تھی کہ سب رندان قدح خوار ہیں۔ ان کا علیحدہ علیحدہ۔ ۔ ۔ سنیں کہ کیا کھلتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص سے بولے کہ تم داڑھی منڈاؤ۔ (اس نے کہا) کہ میری داڑھی بہت زیبائش (زیبا) ہے کیوں منڈواؤں؟آپ بولے نہیں۔ وہ بولا کہ مجھے تمہاری (بات) اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ تو آپ خاموش ہو گئے۔
    جب ایک روز سارے سر منڈے آپ کے عقیدت مند ڈھولوں سے (پر) ناچ رہے تھے۔ بعض پر بھنگ کی حالت طاری تھی اور بعض رسمی صورت میں ناچ رہے تھے۔ بعض وجد میں شاہ صاحب کی چارپائی کے نیچے چلے جاتے، روتے، پیٹتے اور فزع کرتے۔ محبت میں سرشار کچھ سوچتا تک نہ تھا۔ دیکھنے والے تماشائی بھی نیا ہی تماشا دیکھے بہت خوش ہو رہے تھے۔
    پہلے میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ یہ ڈھولوں سے ناچ آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ تو آپ روشن ضمیر تھے۔ فرمانے لگے۔ کہ میں نے اپنے سے تو اسے جاری نہیں کیا۔ البتہ یہیں سے مل گیا۔ جس کی تفسیر یہ تھی کہ یہاں دتے شاہی خاندان میں ڈھولوں سے ناچنے اور وجد کرنے کا رواج شروع ہوا ہے۔ اور انہوں نے بساکہی (بیساکھی) سے سند حاصل کی ہے۔ اور یہی بات ان میں رواج پکڑ چکی ہے۔ پھر دوسرا سوال کیا کہ اس کودنے اور ناچنے میں کیا حاصل ہے۔ تو فرمانے لگے میں نے آوا اینٹوں کا چڑھا دیا ہے۔ کچھ تو پختہ ہوں گی۔ ابراہیم آہن گر نے غلام محمد کا (کو) گھنگھرؤں سے ناچتا دیکھتے ہوئے اپنے دل میں غصہ ظاہر کیا۔ کہ ایسے شریف زادے کو جو تم نے نچوایا ہے کیا فائدہ ہو گا۔ فرمانے لگے کہ بڑا نہ سہی گنڈے(پیاز)  کے چھلڑ (چھلکے) جتنا تو ضرور ہو گا۔
    میں نے بولا کہ ہیر وارث شاہ صاحب سن سکیں گے تو فرمانے لگے۔ یہ جو قرآن مفصل ہے اس کی آیات پڑھی نہیں جا سکتیں تو ہیر وارث شاہ کو کیا کریں۔ یعنے قرآن مفصل            زمانہ ہے  اور یہ تعینات و تنوعات آیات الہی ہیں۔ ھوالظاہر کو دیکھتے ہوئے ہو الباطن کو حی و قیوم حاضر ناظر پاتے اور اسی سے اسی میں رہتے ہوئے اسی کو دیکھتے وہی ہوتے ہیں۔
    پاس ہی جہاں بیٹھے ہوئے تھے چند آدمیوں نے نماز نیت لی۔ میں نے کہا کہ کیا آپ بھی نماز پڑھیں گے تو فرمانے لگے کہ یہ کیا کوئی مشکل کام ہے۔ یعنے نماز تو وہ ہے جو ہم پڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔
    غلام محمد ابھی میرے پاس ہی رہا کرتا تھا کہ اچانک شہر کی ایک عیار عورت کہ جس نے زمانہ کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے تھے ، پس پردہ غلام محمد پر عاشق ہو گئی۔ اب جب سوز دل نے زیادتی پکڑی تو یہ زور ظاہر ہونے لگا۔ عشق کی آگ چھپی نہیں رہتی۔ اور نہ بجھائے سے بجھتی ہے                بلکہ بہڑک(بھڑک) جاتی ہے۔ اس کا لوگوں میں چرچا ہونے لگا۔ غلام محمد منظور نہ کرتا تو پھر شاہ صاحب تک یہ مسئلہ پیش ہوا۔ غلام محمد کو سنت اختیار کرنی لازم آئی۔ اب یہ بھی دونوں ایک چارپائی پر مقیم ہوئے۔ ہر دو کے پٹے بالیدہ قدرتی طور رکاٹے گئے۔ برسوں خدا کی حفاظت میں گزرے۔ یک تن ہوئے۔ خداوند نے سب اچھا نباہا۔ اور گرو نے اچھا کر دکھایا۔ ہر حال میں انگ سنگ رہا۔ آخر ہر دو کا ایک ہی جگہ اکٹھے تھوڑے دنوں کے فاصلہ پر مورخہ جنوری ۱۹۴۴  ؁ دار الفنا سے دارالبقا سدہارے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول