صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
آبِ روانِ کبیر
مشرف عالم ذوقی
تنقیدی مضامین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
دو لفظ اس کتاب کے تعلق سے
صاحب، میں نقاد نہیں اور نہ ہی مکتب تنقید کے بنیادی نکتوں سے آگاہ— لکھنا شروع کیا تو اس بات کی بھی آگاہی ہوئی کہ صرف لکھنا ہی کافی نہیں ہے۔ آپ کے نظریات کی بھی قارئین تک رسائی ہونی چاہئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا— تخلیق کے ساتھ ساتھ مضامین قلم بند کرنے کا، میرا نقطۂ نظر واضح تھا کہ میں رموز کائنات اور اسرار افسانہ کو سمجھنے کی مہم پر نکلا ہوا ایک ادنیٰ سا مسافر ہوں۔ اس درمیان کوئی ۴۰۰ سے زائد مضامین لکھے ہوں گے— کئی بھولے بسرے رسائل میں کھو گئے اور کچھ جو پاس ہیں انہیں الگ الگ موضوعات کے تحت کتابی شکل میں لانے کا ارادہ ہے۔ میں نے اردو فکشن اور اردو ناول کے حوالہ سے بہت کچھ لکھا ہے۔ آبِ روان کبیر میں زیادہ تر مضامین افسانے کے سلسلے میں ہیں — اس کے بعد جلد ہی ناول پر تحریر کردہ مضامین کی کتاب آئے گی۔ یہ کتاب بھی تیار ہے۔ فکشن کی کتاب کو جب عنوان سے سجانے کا مرحلہ آیا تو میرے پاس اقبال کے اس شعر سے زیادہ موزوں کوئی عنوان نہ تھا۔ یعنی آبِ روان کبیر— میں عرض کر دوں کہ میں نے یہ عنوان کیوں رکھا۔ ۔۔۔۔۔
آبِ روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
تو
صاحب ادب ایک بحر ذخار ہے۔ میں اس آب روان کبیر کے کنارے کھڑا ہوں اور
افسانے یا ادب کے رموز کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن یہاں میرا حال
اس شخص کی طرح نہیں ہے جو زمانہ جاہلیت میں اپنے ہاتھوں پر شیر کی تصویر
بنانے آیا تھا۔ سوئی گرم ہوئی۔ ہاتھوں پر سوئی رکھی گئی تو وہ چیخا۔ کیا
کرتے ہو۔ جواب ملا۔ شیر کی دم بنا رہا ہوں — شخص نے کہا۔ دم کے بغیر بھی
تو تصویر بن سکتی ہے۔ چلیے صاحب۔ سوئی پھر گرم ہوئی۔ پھر چیخ ابھری۔ اب
کیا کرتے ہو۔ جواب ملا۔ اب شیر کے کان بنائے جا رہے ہیں۔ چیخ کر کہا گیا
کہ کانوں کے بغیر بھی تو شیر کی تصویر بن سکتی ہے۔
ادب کے نقاد دراصل یہی کر رہے تھے۔ ادب غائب تھا اور مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ افسانے پڑھے ہی نہیں جا رہے تھے اور افسانوں پر نصابی اور تکنیکی نوعیت کے مضامین سامنے آرہے تھے۔ ایک دوسری حکایت کا سہارا لوں تو معاملہ کچھ کچھ پانچ اندھے اور ہاتھی کی شناخت کا تھا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں ان مضامین میں اختلاف کی گنجائش توہے مگر یہ مضامین مغرب کی روشنی میں نہیں لکھے گئے۔ یہاں جو بھی خیال یا فلسفہ در آیا ہے، وہ میری ذاتی فکر کا حصہ ہے۔ اس لیے انکار و انحراف کے راستے کھلے ہیں۔ میں ابھی بھی ادب کا معمولی سا طالب علم ہوں اور ابھی بھی ادب کو مسلسل سمجھنے کے پل صراط سے گزر رہا ہوں۔
مشرف عالم ذوقی
٭٭٭