صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
بابائے اردو مولوی عبدالحق ۔۔ فن اور شخصیت
ڈاکٹر سید معراج نیئر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مہد سے لحد تک
انیسویں صدی برصغیر کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں صدی تھی، جس کے آغاز میں برصغیر میں مغربی طاقتیں بر سر پیکار رہیں۔ وسط میں اس مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا جس کی داغ بیل ظہیر الدین بابر کے تابڑ توڑ حملوں نے 1526ء میں ڈالی تھی اور بقیہ نصف صدی مسلمانوں نے اپنے کھوئے ہوئے وقار اور سماجی و معاشرتی شیرازہ بندی میں وقف کی۔
اس صدی کا ایک بڑا واقعہ 1857ء کی جنگ آزادی ہے، جس کے ذریعے اہل ہند نے مغربی سامراج کا طوق غلامی اتار پھینکنے کے لئے بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا اس جنگ آزادی میں ہندوستان کے ایک شہر نے بہت شہرت حاصل کی یہ دلی کے قریب صوبہ یو پی کا شہر میرٹھ تھا، جہاں سے مجاہدین نے 6مئی 1857ء کو غدر برپا کیا اور طوفان کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک بستی سے دوسری بستی تک پرچم حریت لہراتے ہوئے ختم ٹھونک کر میدان عمل میں آ گئے۔ اسی میرٹھ کے قصبے ہاپوڑ میں مولوی عبدالحق پیدا ہوئے۔ انہوں نے ساری زندگی اردو زبان و ادب کے لئے جہاد میں گزار دی اس کے لئے وہ بستی بستی اور قریہ قریہ میدان عمل میں رہے ان کے بھتیجے محمود حسین تحریر کرتے ہیں:
’’دہلی سے چھتیس میل دور مراد آباد کی جانب میرٹھ میں ایک قصبہ ہاپوڑ واقع ہے ہم لوگ اس قصبے کے رہنے والے ہیں اگر آپ ہاپوڑ جائیں تو کوئی بھی آپ کو محلہ قانون گویان میں پتھر والے کنوئیں کا پتہ بتا دے گا۔ اس کنوئیں کے سامنے ایک بڑی سی عمارت دکھائی پڑتی ہے، جو آج سے تقریباً چالیس برس پہلے مٹی گارے کے کچے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہی بابائے اردو مولوی عبدالحق اور ہم سب کا آبائی مکان ہے۔ ہمارے اجداد یہیں رہتے تھے اور ان کے سپرد دور مغلیہ میں محکمہ مال کی قانون گوئی کی خدمتیں تھیں‘‘
مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ گے کا نستخیر تھے جنہوں نے مغلیہ عہد میں اسلام کی روشنی سے اپنے دلوں کو منور کیا۔ ان کے سپرد سلطنت مغلیہ میں ہمیشہ محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں و مراعات اور معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئی تھیں یہ معافیاں انگریزی حکومت نے بھی بحال رکھیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی احمد حسن کے بقول:
’’میں ہی خاندان کا وہ آخری فرد ہوں جس نے بہ منظوری گورنمنٹ 1945ء میں اپنی خاندانی معافی کو ختم کیا۔‘‘
مولوی عبدالحق کے خاندانی حالات پر ان کے بھتیجے محمود حسین نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’یہ سب ہندو تھے اور کائستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے ان میں سے ایک صاحب عہد شاہجہانی میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور شیخ عبدالدائم نام پایا ان کی اولاد شمال مغربی ہند جس کو آج اتر پردیش کہا جاتا ہے کے تمام اضلاع میں پھیل گئی ان ہی میں سے ہمارے مورث اعلیٰ شیخ صادق حسین تھے، جن کی قبر آج بھی ہمارے خاندانی قبرستان ہاپوڑ میں موجود ہے شیخ صادق حسین مرحوم سے جو سلسلہ چلا اس میں میرے دادا یخ علی حسین صاحب مرحوم تھے، جن کی آٹھ اولادیں ہوئیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں اولاد نرینہ میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم تھے، اس کے بعد مولوی عبدالحق اب صرف میرے والد مولوی احمد حسن، جو بابائے اردو کے چھوٹے بھائی ہیں بقید حیات ہیں باقی سب بہن بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے۔‘‘
لیکن بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک خاص ملازم عبدالرشید جن کی تین پشتیں (دادا والد اور عبدالرشید) مولوی عبدالحق کے خاندان کی خدمت میں رہیں، اپنے ایک انٹرویو میں، جو انہوں نے مولوی عبدالحق کی وفات پر شمیم احمد کو دیا تھا، محمود حسین صاحب کے اس بیان سے اختلاف کیا ہے جس میں شیخ محمود حسین نے اپنے دادا کی آٹھ اولادیں بتائی تھیں صوفی عبدالرشید اپنی والدہ کی روایت سے بتاتے ہیں:
’’مولوی صاحب سمیت تین بھائی اور تین بہنیں تھیں بھائیوں میں بڑے ضیاء الحق صاحب ہاپوڑ میں رہتے تھے منجھلے بھائی عبدالحق صاحب تھے اور چھوٹے احمد حسن، جو بھوپال میں انجینئر تھے مولوی صاحب کی بڑی بہن منشی اخلاق حسین محرر اور زمیندار کو بیاہی گئی تھیں، جو ہاپوڑ میں رہتے تھے باقی دو چھوٹی بہنیں بھی ہاپوڑ کے زمیندار گھرانوں میں بیاہی گئی تھیں۔‘‘
غیور عالم صاحب نے ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1968ء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سوانحی خاکہ اپنی ذاتی تحقیق کی بنیاد پر تحریر کیا گو اس تحقیقی خاکے میں انہوں نے تحقیقی حوالے، شواہد اور روایتوں کا تذکرہ نہیں کیا، لیکن تحریر میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندانی پس منظر پر اچھی خاصی روشنی پڑتی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
’’بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ روایتیں کمزور ہیں ہاں صرف ان کے جد اولیٰ صادق علی کے نام کا پتہ چلتا ہے، لیکن درمیانی کڑیاں غائب ہیں اور ہمیں ان کے خاندان کا سلسلہ ان کے دادا صفدر بخش سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ شیخ صفدر بخش کے دو بھائیوں کے نام جو مجھے اپنی ذاتی تحقیق کے دوران میں معلوم ہوئے ان میں ایک کا نام شیخ بشارت علی اور دوسرے کا شیخ ضامن علی تھا۔ ان میں شیخ صفدر بخش ہی سب سے بڑے نکلے۔ شیخ صاحب نے دو شادیاں کیں ان میں پہلی بیوی سے شیخ امام بخش وغیرہ تھے جن کے خاندان کے افراد آج بھی ہاپوڑ میں موجود ہیں دوسری بیوی سے شیخ علی حسن تھے جو مولوی عبدالحق کے والد تھے۔‘‘
شیخ علی حسن کے سات اولادیں تھیں ان میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق ، شیخ احمد حسن اور چھوٹے محمود تھے، ان کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ بعض حضرات نے جب بابائے اردو کے خاندانی حالات پر روشنی ڈالی تو انہوں نے ان کے صرف تین بھائیوں کا تذکرہ کیا۔ شیخ احمد حسن نے بھی اپنے چھوٹے بھائی محمود کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے شاید اس وجہ سے کہ وہ بچپن میں انتقال کر گئے تھے اہمیت نہیں دی، لیکن میں نے یہ ذکر ضروری سمجھا، اس لئے کہ آئندہ تحقیقی اعتبار سے غلطی کا امکان نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ حالات کی گرد جب عبدالحق کے خاندانی حالات پر دبیز ہو جائے گی تو غلطی ایک حقیقت بن جائے گی، اور ان کے خاندانی حالات لکھنے والے تحقیق اور یقین کے ساتھ ان کے دو بھائیوں کا ذکر کریں گے۔ اس لئے میں نے زیادہ اختصار بہتر نہ سمجھا۔ بابائے اردو کے تین بھائیوں کا تو ذکر کر چکا ہوں، اس کے علاوہ ان کی تین بہنیں تھیں۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے خاندانی پس منظر کے سلسلے میں ہمیں مولوی عبدالحق صاحب کے بھائیوں کا تذکرہ تو تفصیل سے مل جاتا ہے لیکن بہنوں کے سلسلے میں صرف اشارے یا ان کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے۔ مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ بے باک صحافی تھے بقول فضول احمد صدیقی:
’’شیخ صاحب کی شہرت ان سے بہت آگے آگے چلتی تھی۔ پگڑیاں اچھالنے میں ان کا نام خاصا اونچا تھا اور وہ اونچی اونچی کی ہی خبر لیتے تھے مرحوم مولانا محمد علی جوہر اور خواجہ حسن نظامی میں جو بم خچ رہی اس سلسلے میں ہاپوڑی صاحب محتاج تعارف نہ تھے ایک ہاپوڑ کیا ان سے رجواڑے تک پناہ مانگتے تھے اس لئے شیخ صاحب کا ہر شہر میں ڈیکلریشن کا چھاپہ خانہ تھا اور وہ جہاں سے چاہتے اپنے عجیب عجیب دستخط شدہ پمفلٹ بڑے طرم بازوں کے خلاف بے دھڑک شائع کر دیتے۔‘‘ (۶)
دراصل یہ زمانہ ہندوستان میں انگریزوں اور ان کے گماشتوں کے خلاف بغاوتوں کا دور تھا رجواڑے مغربی سامراج کی پناہ گاہیں تھیں جہاں کے عوام روایتی ظلم و ستم کا شکار تھے شہزادوں، ولی عہدوں اور نوابوں میں باہم جنگ تخت نشینی رہتی تھی اور دربار میں سازشیں پروان چڑھتی تھیں، اس لئے اخبار نویسوں کا ایک طبقہ جس کے علم بردار دیوان سنگھ مفتون تھے بے باک صحافت کی داغ بیل ڈال رہے تھے اس طبقے سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی ضیاء الحق صاحب کا تعلق تھا اس سلسلے میں فضل احمد صدیقی لکھتے ہیں:
’’تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ان کے شبدیز قلم نے بجائے ادب کے میدان سیاست کو جولاں گاہ بنایا جیسا کہ ان کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے وہ اردو کے بڑے زبردست اہل قلم، انشاء پرداز، ماہر صحافی تھے بابائے اردو کو سر سید، علی گڑھ کالج کی تعلیم اور ماحول نے شہرت پر پہنچا دیا مگر وہ اپنے وطن اور پنجاب ہی میں رہے جہاں ان کے والد بر سر ملازمت تھے۔ انیسویں صدی کے آخر دور میں انہوں نے دیسی والیاں ریاست کی بد عنوانیاں اور بد کرداریاں اور مظالم بے نقاب کرنے کے لئے قلم اٹھایا اور کتابچے لکھ کر شائع کرنا شروع کیے جن میں سنسنی خیز انکشافات کئے گئے ۔ جس کے نتیجے میں ان پر مقدمات دائر ہوئے۔۔۔۔ 1904 کی تقسیم بنگال اور جنگ روس و جاپان کے ایام میں ہندو بنگالیوں نے حکومت انگریزی کے خلاف منظم ہل چل شروع کر رکھی تھی صوفی اصبا پرشاد کا ایک اردو اخبار نکلتا تھا جس سے شیخ صاحب بھی وابستہ رہے اور ان کے ہم نوا اور شریک کار ہو گئے جب حکومت نے ان لوگوں کے خلاف اقدامات شروع کئے تو اجیت سنگھ، اصبا پرشاد اور شیخ صاحب ہندوستان سے ایران چلے گئے اصبا پرشاد کا ایران میں انتقال ہو گیا، اجیت سنگھ ایران سے لاپتہ ہو گیا شیخ صاحب انگریزی سفیر متعینہ ایران کی ایماء پر گرفتار کر لئے گئے اور سات سال کی سزا ہو گئی۔۔۔۔ ان کورشین اسپائی (روس جاسوس) قرار دیا گیا اور سینٹرل انٹیلی جنس (مرکزی سی آئی ڈی) نے نگرانی شروع کر دی۔‘‘ (۷)
شیخ ضیاء الحق عمر کے آخری حصے میں بیمار رہنے لگے انہوں نے اپنے خط محررہ 8ستمبر 1936 ء میں سراج احمد عثمانی کو بیماری کے سلسلے میں تحریر کیا:
’’ڈاکٹروں کے علاج سے کچھ فائدہ ہوا، مگر کل نہیں تین چار دن سے یونانی علاج ایک باہر کے حکیم کا ہے بخار بالکل نہیں رہا کچھ یرقان کا اثر ہے کھایا پیا کچھ نہیں جاتا بلا سہارے نہیں چل سکتا۔‘‘
اس خط کے کچھ عرصے بعد شیخ ضیاء الحق صاحب کا یرقان کے سبب انتقال ہو گیا۔
٭٭٭