صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اس آباد خرابے میں
ابنِ انشا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
انشا جی کی کیا بات بنے گی
انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا ناسور ہوئے
بستی بستی آگ لگی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے
لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
اب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے
اے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
قافلے والے دور گئے ، بجھنے دواگر بجھتا ہے الاؤ
ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
سمے سمے کا ایک را گ ہے ،سمے سمے کاا پنا بھاؤ
آس کی اُجڑی پھلواری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
پچھلے پہر کے اندھیارے میں کافوری شنعیں نہ جلاؤ
انشا جی وہی صبح کی لالی ۔ انشا جی وہی شب کاسماں
تم ہی خیال کی جگر مگر میں بھٹک رہے ہو جہاں تہاں
وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہاریں وہی خزاں
ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں
لیکن دورا فق پر دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں
بادل بادل امڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں
منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے
ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے
روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے
قدم قدم پر مدماتی مسکان بھرے پر ہاتھ نہ آئے
چندرما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے
ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے
جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے
تم پر یوں کے راج دلارے ،تم اونچے تاروں کے کوی
ہم لوگوں کے پاس یہی اجڑا انبر ، اجڑی دھرتی
تو تم اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو اور ندیاں سنگیت بھری
ہم پت جھڑ کی اجڑی بیلیں ، زرد زرد الجھی الجھی
ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروں میں
حال ہماراسنتے تھے تو لوٹتے تھے انگاروں میں
آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں
آتے ہیں نیپام اگلتے وحشی سبزہ زاروں میں
آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیاداروں میں
حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں اخباروں میں
اوروں کی تو باتیں چھوڑو ، اور تو جانے کیا کیا تھے
رستم سے کچھ اور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے
لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھارا تھے
انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے
نا ہم اتنے چپ چپ تھے تب، نا ہم اتنے تنہا تھے
اپنی ذات میں راجا تھے ہم اپنی ذات میں سینہ تھے
طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے
پھر تمہارا خط آیا
شام حسرتوں کی شام
رات تھی جدائی کی
صبح صبح ہر کارہ
ڈاک سے ہوائی کی
نامۂ وفا لایا
پھر تمہارا خط آیا
پھر کبھی نہ آؤنگی
موجۂ صبا ہو تم
سب کو بھول جاؤنگی
سخت بے وفا ہو تم
دشمنوں نے فرمایا
دوستوں نے سمجھایا
پھر تمہارا خط آیا
ہم تو جان بیٹھے تھے
ہم تو مان بیٹھے تھے
تیری طلعتِ زیبا
تیرا دید کا وعدہ
تیری زلف کی خوشبو
دشتِ دور کے آہو
سب فریب سب مایا
پھر تمہارا خط آیا
ساتویں سمندر کے
ساحلوں سے کیوں تم نے
پھر مجھے صدا دی ہے
دعوت وفا دی ہے
تیرے عشق میں جانی
اور ہم نے کیا پایا
درد کی دوا پائی
دردِ لادوا پایا
کیوں تمہارا خط آیا
٭٭٭