صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اب بس کرو ماں
ارشد نیاز
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
جنگی قبرستان
وہ ________
اس خاموش نگری میں آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا جہاں کوئی اجنبی طاقت اسے کھینچ لائی تھی۔
وہ بڑھ رہا تھا۔
خاموشی میں ڈوبی کرب انگیز خواہشیں کروٹیں لے رہی تھیں اور اس کے جسم میں سیمابی لہریں یکے بعد دیگرے دوڑ رہی تھیں اسے محسوس ہواجیسے اس کا اپنا بیٹا اس سکوت انگیز فضا میں گم ہو گیا ہو اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آنسو کا ایک قطرہ اس مقبرے پر گر کر جذب ہو گیا جس کے کتبے پر یہ درج تھا ________
ڈبلیو۔ اے۔ انگرام
۲۵؍ نومبر ۱۹۴۶
عمر ۲۱؍برس
’’خدا کا وعدہ ہے کہ جب آنکھوں کے آنسو خشک ہو جائیں گے تو ہم لوگ پھر اکٹھے ہوں گے‘‘۔
یہ پڑھتے ہی اسے احساس ہوا جیسے یہ بندوق دھاری فوجی اپنی وردی میں قبر سے باہر نکل آیا ہو اور اپنا لہو لہان چہرہ لئے اس کی حالت پر مسکرارہاہو۔
’’بند کرو ، یہ مسکراہٹ‘‘۔
دفعتاً اس کی آواز گونج اٹھی اوریوں لگا جیسے اس جنگی قبرستان کے تمام بہادر اپنی اپنی قبروں سے باہر نکل آئے ہوں۔
یہ دیکھ کراس نے اپنی آنکھوں کو مسلا ، یقین دلانا چاہا کہ اس وقت جو کچھ بھی اس کے روبرو ہے ، محض ایک دھوکا ہے مگر بیکار، حقیقت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ________
یہ دوسری عالم گیر جنگ کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے فاشزم کے خلاف جنگ لڑ کر خود کو امر بنا لیا۔ہاں ! انہیں دیکھو ، ایک ایک چہرے کو پہچانو ، یہ کھلی کتابیں ہیں۔ انہیں پڑھو ، تب تمہیں معلوم ہو گا کہ جس زندگی کے ایک پریشان کن لمحے سے انسان گھبرا کر موت کی دعا کرتا ہے اس کی اہمیت کیا ہے۔ اب اس کی نگاہیں اطراف کا جائزہ لینے لگیں ________
ایئر فورس کے جوان ایک طرف سینہ تانے کھڑے تھے تو دوسری طرف بحری فوج کے کچھ جوان اپنی المناک داستان سنانے کے لئے حسرت مآب نگاہوں سے اسے ایک ٹک دیکھ رہے تھے جب کہ بری فوج کے جوانوں سے الگ ہٹ کر بندوق دھاری ڈبلیو۔ اے۔ انگرام اسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔
’’تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘
اچانک اس نے پوچھا اور اس کے قدم اس کی جانب اٹھ گئے ، قریب پہنچا تو پہلے وہ مسکرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
’’کیوں انگرام؟ کیوں۔۔۔۔۔۔؟ ! ‘‘
اس نے پوچھا ہی تھا کہ انگرام کی آنکھوں میں تیرتے آنسو جھرنے کی طرح گرنے لگے۔ اسنے اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ________
’’میں اپنی ماں سے اپنی موت سے قبل نہیں مل سکامگر اس کی یادوں کے سہارے ہم۔۔۔۔‘‘
کیا اس وجہ سے کہ وہ درختوں کے پھلوں کو کھائے، کھیتوں سے نکلے ہوئے اناجوں کو اُبال کر اپنا پیٹ بھرے یا پھر اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پہ ظلم ڈھائے اور اپنے آپ کو آقا کہلوائے یا اپنی مخالف جنس کے پہلو میں پڑا رہے۔
اگر پیدا ہونے کا مقصد صرف یہی ہے تو پھر جانوروں میں اورانسانوں میں کیا فرق ہے؟________
یہی کہ انسان کھانے کے لئے ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے اور جانور اپنے منھ کا۔
یہ یقیناً ہمارے پیدا ہونے کا مقصد نہیں ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔
ارگاتم بھی یہاں آ کر اٹک سا گیا۔ اس کی سوچ کا پرندہ پھڑ پھڑانے لگا۔ زندگی اپنی معنوی حقیقت اجاگر کرنے سے قاصر ہو گئی اور خود اس کی اپنی زندگی بے مقصد نظر آنے لگی۔
اس مقام پر پہنچ کر وہ تلملا سا گیا۔
اسے خبر تو تھی کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی طاقت ہے مگر اسے یہ علم نہیں تھا کہ زندگی کو سکون و راحت بخشنے والا نظام یعنی روح بھی موجود ہوتی ہے۔انگنت سی نامعلوم چیزیں معلوم ہونے کے لئے خود اس کی ذات میں تڑپ رہی تھیں۔
اور وہ بے چین ہو رہا تھا۔
اسی دوران اس کی زندگی میں ایک خوبصورت سی لڑکی نیرسانام کی منڈلانے لگی جو اسThinkerکو ایک نئی روشنی سے آشنا کرنا چاہتی تھی مگر خیالات میں ڈوبے ہوئے لوگOpposite Sex میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔
ارگاتم بھی اسی مرحلے سے گزرنے لگا مگر کب تک ________
حسن کے آگے زمانہ سر جھکاتا ہے ،اسے بھی جھکانا ہی پڑا۔
عشق کی لذت نے اس پر زندگی کے بہت سے راز افشا کر دیئے۔
اس کے نظریات بدلنے لگے اور تجربات میں اضافہ ہونے لگا۔
یوں زندگی اس کی کسوٹی پر پرکھی جانے لگی۔
وقت گزرنے لگا اور اس کے ہم خیالوں میں اضافہ بھی ہوتا رہا اور نیرسا اسے زندگی کا جام پلاتی رہی۔
پھر ایک دن بڑے وثوق کے ساتھ اسی چبوترے پر حاضر ہوا۔
وہاں بڑی گہما گہمی تھی۔
وہ مجمع کے سامنے مسکراتے ہوئے اپنے تجربات بیان کرنے لگا۔
’’زندگی صرف محبت کرنے کے لئے وجود میں آتی ہے۔جس انسان نے ایک دوسرے انسان سے محبت کی دراصل اس نے زندگی گزار لی۔ جس نے نفرت و عداوت کی بھٹی کو اپنی الفت کی مینہ سے سرد کیا،اس نے زندگی کو حاصل کیا۔جس نے دوسروں کے دکھوں اور غموں میں آ کر خوشی حاصل کی،وہ زندگی کی لذت سے آشنا ہوا۔ حقیقتاً محبت ہی وہ عظیم شئے ہے جس سے ہر جنگ جیتی جاسکتی ہے۔‘‘
وہ ہنوز تقریر کر رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک طوفان اٹھا________
دھول اڑاتا ہوا، گھوڑوں کے ٹاپوں تلے زمین کو رو ندتا ہوا۔
ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔
ارگاتم اور اس کی جماعت اس افراتفری کا شکار ہو گئی۔
چیخیں بلند ہونے لگیں۔ تلوار ،نیزے اور طپنچے قہر برسانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھو ٹی سی خوبصورت ریاست قبرستان میں بدل گئی کہ فاتح کے سامنے زندگی ایک جنگ ہے جسے وہ ہر قدم پر جیت لینا جانتا ہے،خیر و شر سے بے نیاز
***
اس خاموش نگری میں آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا جہاں کوئی اجنبی طاقت اسے کھینچ لائی تھی۔
وہ بڑھ رہا تھا۔
خاموشی میں ڈوبی کرب انگیز خواہشیں کروٹیں لے رہی تھیں اور اس کے جسم میں سیمابی لہریں یکے بعد دیگرے دوڑ رہی تھیں اسے محسوس ہواجیسے اس کا اپنا بیٹا اس سکوت انگیز فضا میں گم ہو گیا ہو اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آنسو کا ایک قطرہ اس مقبرے پر گر کر جذب ہو گیا جس کے کتبے پر یہ درج تھا ________
ڈبلیو۔ اے۔ انگرام
۲۵؍ نومبر ۱۹۴۶
عمر ۲۱؍برس
’’خدا کا وعدہ ہے کہ جب آنکھوں کے آنسو خشک ہو جائیں گے تو ہم لوگ پھر اکٹھے ہوں گے‘‘۔
یہ پڑھتے ہی اسے احساس ہوا جیسے یہ بندوق دھاری فوجی اپنی وردی میں قبر سے باہر نکل آیا ہو اور اپنا لہو لہان چہرہ لئے اس کی حالت پر مسکرارہاہو۔
’’بند کرو ، یہ مسکراہٹ‘‘۔
دفعتاً اس کی آواز گونج اٹھی اوریوں لگا جیسے اس جنگی قبرستان کے تمام بہادر اپنی اپنی قبروں سے باہر نکل آئے ہوں۔
یہ دیکھ کراس نے اپنی آنکھوں کو مسلا ، یقین دلانا چاہا کہ اس وقت جو کچھ بھی اس کے روبرو ہے ، محض ایک دھوکا ہے مگر بیکار، حقیقت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ________
یہ دوسری عالم گیر جنگ کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے فاشزم کے خلاف جنگ لڑ کر خود کو امر بنا لیا۔ہاں ! انہیں دیکھو ، ایک ایک چہرے کو پہچانو ، یہ کھلی کتابیں ہیں۔ انہیں پڑھو ، تب تمہیں معلوم ہو گا کہ جس زندگی کے ایک پریشان کن لمحے سے انسان گھبرا کر موت کی دعا کرتا ہے اس کی اہمیت کیا ہے۔ اب اس کی نگاہیں اطراف کا جائزہ لینے لگیں ________
ایئر فورس کے جوان ایک طرف سینہ تانے کھڑے تھے تو دوسری طرف بحری فوج کے کچھ جوان اپنی المناک داستان سنانے کے لئے حسرت مآب نگاہوں سے اسے ایک ٹک دیکھ رہے تھے جب کہ بری فوج کے جوانوں سے الگ ہٹ کر بندوق دھاری ڈبلیو۔ اے۔ انگرام اسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔
’’تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘
اچانک اس نے پوچھا اور اس کے قدم اس کی جانب اٹھ گئے ، قریب پہنچا تو پہلے وہ مسکرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
’’کیوں انگرام؟ کیوں۔۔۔۔۔۔؟ ! ‘‘
اس نے پوچھا ہی تھا کہ انگرام کی آنکھوں میں تیرتے آنسو جھرنے کی طرح گرنے لگے۔ اسنے اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ________
’’میں اپنی ماں سے اپنی موت سے قبل نہیں مل سکامگر اس کی یادوں کے سہارے ہم۔۔۔۔‘‘
کیا اس وجہ سے کہ وہ درختوں کے پھلوں کو کھائے، کھیتوں سے نکلے ہوئے اناجوں کو اُبال کر اپنا پیٹ بھرے یا پھر اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پہ ظلم ڈھائے اور اپنے آپ کو آقا کہلوائے یا اپنی مخالف جنس کے پہلو میں پڑا رہے۔
اگر پیدا ہونے کا مقصد صرف یہی ہے تو پھر جانوروں میں اورانسانوں میں کیا فرق ہے؟________
یہی کہ انسان کھانے کے لئے ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے اور جانور اپنے منھ کا۔
یہ یقیناً ہمارے پیدا ہونے کا مقصد نہیں ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔
ارگاتم بھی یہاں آ کر اٹک سا گیا۔ اس کی سوچ کا پرندہ پھڑ پھڑانے لگا۔ زندگی اپنی معنوی حقیقت اجاگر کرنے سے قاصر ہو گئی اور خود اس کی اپنی زندگی بے مقصد نظر آنے لگی۔
اس مقام پر پہنچ کر وہ تلملا سا گیا۔
اسے خبر تو تھی کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی طاقت ہے مگر اسے یہ علم نہیں تھا کہ زندگی کو سکون و راحت بخشنے والا نظام یعنی روح بھی موجود ہوتی ہے۔انگنت سی نامعلوم چیزیں معلوم ہونے کے لئے خود اس کی ذات میں تڑپ رہی تھیں۔
اور وہ بے چین ہو رہا تھا۔
اسی دوران اس کی زندگی میں ایک خوبصورت سی لڑکی نیرسانام کی منڈلانے لگی جو اسThinkerکو ایک نئی روشنی سے آشنا کرنا چاہتی تھی مگر خیالات میں ڈوبے ہوئے لوگOpposite Sex میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔
ارگاتم بھی اسی مرحلے سے گزرنے لگا مگر کب تک ________
حسن کے آگے زمانہ سر جھکاتا ہے ،اسے بھی جھکانا ہی پڑا۔
عشق کی لذت نے اس پر زندگی کے بہت سے راز افشا کر دیئے۔
اس کے نظریات بدلنے لگے اور تجربات میں اضافہ ہونے لگا۔
یوں زندگی اس کی کسوٹی پر پرکھی جانے لگی۔
وقت گزرنے لگا اور اس کے ہم خیالوں میں اضافہ بھی ہوتا رہا اور نیرسا اسے زندگی کا جام پلاتی رہی۔
پھر ایک دن بڑے وثوق کے ساتھ اسی چبوترے پر حاضر ہوا۔
وہاں بڑی گہما گہمی تھی۔
وہ مجمع کے سامنے مسکراتے ہوئے اپنے تجربات بیان کرنے لگا۔
’’زندگی صرف محبت کرنے کے لئے وجود میں آتی ہے۔جس انسان نے ایک دوسرے انسان سے محبت کی دراصل اس نے زندگی گزار لی۔ جس نے نفرت و عداوت کی بھٹی کو اپنی الفت کی مینہ سے سرد کیا،اس نے زندگی کو حاصل کیا۔جس نے دوسروں کے دکھوں اور غموں میں آ کر خوشی حاصل کی،وہ زندگی کی لذت سے آشنا ہوا۔ حقیقتاً محبت ہی وہ عظیم شئے ہے جس سے ہر جنگ جیتی جاسکتی ہے۔‘‘
وہ ہنوز تقریر کر رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک طوفان اٹھا________
دھول اڑاتا ہوا، گھوڑوں کے ٹاپوں تلے زمین کو رو ندتا ہوا۔
ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔
ارگاتم اور اس کی جماعت اس افراتفری کا شکار ہو گئی۔
چیخیں بلند ہونے لگیں۔ تلوار ،نیزے اور طپنچے قہر برسانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھو ٹی سی خوبصورت ریاست قبرستان میں بدل گئی کہ فاتح کے سامنے زندگی ایک جنگ ہے جسے وہ ہر قدم پر جیت لینا جانتا ہے،خیر و شر سے بے نیاز
***