صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


آتش رفتہ کا سراغ

مشرف عالم ذوقی

ناول

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

کچھ اس ناول کے بارے میں

’میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘

’لے سانس بھی آہستہ‘ کے فوراً بعد— ’آتشِ رفتہ کا سراغ—‘

قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے والوں کے نام دہشت گردی کی مہر لگا دی گئی۔  سائنسی انقلابات نے ارتقا کے دروازے تو کھولے لیکن ڈی۔ ان۔  اے اور جینوم سے زیادہ شہرت اے کے ۴۷ اور اسلحوں کو ملی— ایک زمانے میں جہاں علوم و فنون کے لیے برٹنڈرسل جیسے دانشور بھی مسلمان سائنسدانوں کی مثالیں دیا کرتے تھے، وہاں دیکھتے ہی دیکھتے مغرب نے جیش، لشکر طیبہ، ظواہری اور اسامہ بن لادن کے نام جپنے شروع کر دیئے— انحطاط اور ذلّت کی حد یہ ہے کہ مسلسل مسلمانوں کو اپنی وفاداری اور حب الوطنی کی شہادت پیش کرنی پڑتی ہے۔

میں نے مسلمانوں کے مسائل پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا— مسلمان، بیان، ذبح— سن ۲۰۱۱ تک آتے آتے اس پر تصادم دنیا کے درمیان مسلمانوں کی عام حالت کٹھ پتلی جیسی ہو چکی ہے۔  اس تحریر کے لکھے جانے تک مصر میں بغاوت کا پرچم لہرایا جا چکا ہے۔  چین اور اس کے جیسے سہمے ہوئے کئی ملکوں نے فیس بک اور گوگل پر پابندی عائد کر دی ہے— ان واقعات کو بھی مسلمانوں کے اصل انحطاط اور محرومیوں و ناکامیوں سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے— ہندوستان کی بات کیجئے تو لبراہن کمیشن سے بابری مسجد فیصلے تک، جمہوریت کی ڈگ ڈگی بجا کر مسلمانوں کو خاموش رہنا سکھایا جاتا ہے۔  ہزاروں فرضی انکاؤنٹرز کی داستانیں سامنے آتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ انکاؤنٹر کرنے والوں کو حکومتی اعزاز اور تمغے بھی مل جاتے ہیں۔

میں ایک بڑے ناول کی اسٹریٹجی تیار کرتے ہوئے مسلم نقطۂ نظر سے جدید دور کے تقاضوں پر اپنا موقف پیش کرنا چاہتا تھا۔  لیکن اس میں ایک خطرہ بھی تھا— اور ایک چیلنج بھی— عام نقاد ایسے ناولوں کو محض رپورٹنگ بتا کر قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  شروع میں میرے ناول بیان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا— یہ جاننا ضرور ی ہے کہ اس طرح کے ناول محض خلا میں تحریر نہیں کیے جا سکتے— سماجی اور سیاسی شعور کے بغیر کوئی بڑا ناول قلم بند نہیں کیا جا سکتا— ایک خطرہ اور بھی تھا، اگر اس ناول میں بابری مسجد کا نام آتا ہے تو کیا میں بابری مسجد کی جگہ کوئی اور فرضی نام استعمال کروں ؟ یا جیش محمد، لشکر طیبہ کی جگہ کوئی فرضی تحریک، یا پھر ۳۰۔ ۲۰ برسوں کی سیاست میں جو سیاسی رہنما ہمیں ’تحفے‘ میں ملے، کیا ان کے ناموں کو بھی تبدیل کر دیا جائے؟

میں کہہ سکتا ہوں، یہاں میں آزادی اظہار کا اعلان کرتے ہوئے ہر طرح کے تیر و کمان سے لیس تھا۔  میرے سامنے روسی ناول نگاروں کی مثالیں موجود تھیں، جنہوں نے اپنے عہد کی داستانوں کو قلم بند کرتے ہوئے، اس عہد کی سیاسیات اور سماجیات کو نئی معنویت کے ساتھ متعین کیا اور یہ سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے— اس لیے مجھے ان ادبی فتووں کا ڈر نہیں کہ سیاسی شعور کو کچھ لوگ ابھی بھی رپورٹنگ کا درجہ دیتے ہیں۔

ناول کے آغاز سے قبل ایک مشکل اور بھی سامنے آ رہی تھی کہ اسے شروع کہاں سے کیا جائے—آج کے مسلمانوں کی سیاسی وسماجی زندگی کی عکاسی کے لیے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے بہتر مثال میرے نزدیک کوئی دوسری نہیں تھی۔  یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو میں نے محض علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔  اصل بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا اس ناول سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔  کچھ لوگ بے گناہ مارے جاتے ہیں۔  لباسوں پر انگلیاں اٹھتی ہیں — کچھ نوجوان خاموشی سے غائب ہو جاتے ہیں۔  مسلمانوں کو کرائے کے گھر نہیں ملتے۔  کال سینٹر سے لے کر ہر جگہ ایک مسلمان نام کا ہونا شک کی وجہ بن جاتا ہے— پچھلے دس برسوں میں صرف انصاف کی موہوم سی امید کو لے کر مسلمانوں نے جینا تو جاری رکھا ہے مگر زندگی کے اس سفر میں شکوک، بندشیں نا انصافیوں اور محرومیوں کا ہی تحفہ ملا ہے—

اب کچھ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بارے میں — کہ اسی انکاؤنٹر سے۔  مجھے اس ناول کی تحریک ملی اور یہاں کسی حد تکمیں نے اپنے معنی و مفہوم کو سامنے رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔

سرسری اس جہان سے گزرے

’’میرا خواب ہے کہ ایک دن

جارجیا کے پرانے غلاموں /

اور پرانے زمیں داروں کے بیٹے/

بھائی چارے کے ساتھ ایک جگہ رہیں /

میرا خواب ہے کہ میرے بیٹے ایسے امریکہ میں سانس لیں

جہاں انہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں /

انہیں عملی نمونہ کے طور پر پرکھا جائے/‘‘

—  مارٹن لوتھر کنگ

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول