صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
آشرم
شکیل الرّحمٰن
شکیل الرحمٰن کی آپ بیتی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ایک
اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے اندر رہے۔
اپنے وجود کے آشرم میں !
غالباً یہی وجہ ہے کہ زندگی کے سفر میں اس نے غالبؔ کی طرح ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ زندگی میں رہتے ہوئے بھی زندگی کرنے والوں سے الگ ہے، اسی طرح جس طرح امام تسبیح میں ہوتا ہے مگر شمار میں نہیں ہوتا!
اپنی آنکھوں کے اندر رہتے ہوئے اُسے حیات و کائنات اور اشیاء و عناصر کے جو تجربے حاصل ہوئے اُنھیں وہ بہت قیمتی اور عزیز جانتا ہے۔
اپنے وجود کے آشرم اور اپنی آنکھوں کے اندر نہ ہوتا تو اُسے
ماضی کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ملتا، ماضی کی تاریکی اور روشنی، اس کے تحرک اور رقص اور اس کی سیّال کیفیت سے ناآشنا رہتا، قبائلی، مذہبی، مابعد الطبعیاتی اور مادّی تجربوں کی چمکتی ہوئی روشن لہروں میں بار بار جذب نہ ہوتا۔
وہ یہی سوچتا
ماضی کتنا معنی خیز، کتنا جہت دار اور کس قدر پہلو دار ہے!
’تجربہ‘
جب تک ماضی کا حصہ نہیں بن پاتا اُس وقت تک اس کی قدر و قیمت کا اندازہ
نہیں ہوتا اور ہر نیا، تازہ اور معنی خیز تجربہ تو ماضی کا ہی حصہ بن کر
اپنی تہہ دار معنویت کا احساس دیتا ہے۔
’ماضی‘ ایک
کائنات ہے، اس کا مکمل سفر ممکن نہیں ، ایسی صحرا نوردی کا تصوّر بھی آسان
نہیں ، صرف وہ ’نگاہ‘ جو آنکھ کے اندر ہوتی ہے ماضی کے بعض علاقوں کا سفر
کر لیتی ہے اور اپنی کائنات کے اُن رنگوں کو کسی حد تک پہچان لیتی ہے جو
وہاں پہنچ کر نئے رنگوں کی صورتیں اختیار کر لیتے ہیں ۔
ابتداء میں جب اُسے اِس گہری سچائی کا احساس اس طرح ہوا کہ ماضی ایک دوسرا ملک ہے، انتہائی پراسرار اور وہ--- ’وقت‘ اور ’زمانے‘ میں عارضی طور پر زندگی بسر کرتا رہا ہے تو آہستہ آہستہ اپنی اس ’نگاہ‘ کے تئیں بیدار ہونے لگا، اپنی آنکھوں کے اندر رہنے لگا اور اپنی اُس ’نگاہ‘ کی حفاظت کرنے لگا جو آنکھ کے اندر ہوتی ہے---
اسی وجہ سے
اُس کے قبیلے نے اُسے اچانک علیٰحدہ کر دیا، قبیلے کے تمام افراد نے رشتے توڑ لیے، اس بھری دُنیا میں ایسے مسافر سے بھلا کیوں رشتہ قائم کیا جائے جو صرف عارضی طور پر یہاں رہنے آتا ہے اور پھر اپنی دُنیا میں واپس چلا جاتا ہے۔
اور وہ تھا
کہ ماضی کے تجربوں کی روشنی پی رہا تھا، جس قدر پیتا، اُس کی تشنگی اُسی قدر اور بڑھ جاتی۔
اندھیرے
میں نوری لکیروں کی تلاش میں سرگرداں رہا، جب بھی کوئی روشن، منوّر اور
متحرّک لکیر ایسی ملی تو اسے اپنی نگاہ سے چوم لیا اور انسان اور اُس کی
تمام تہذیب کے تئیں کسی نہ کسی سطح پر خود کو بیدار محسوس کرنے لگا۔
اپنی ڈائری میں لکھا تھا:
’’میری زندگی میں جانے کتنے ایسے لمحے آئے ہیں
جن لمحوں میں
میں نے خود کو بے حد اجنبی پایا ہے
بھلا ان کو میں نے
کب خلق کیا؟
ایسے لمحے کہاں سے آتے ہیں
جو مجھے اچانک
اجنبی بنا دیتے ہیں ۔‘‘ (ڈائری ۳۰-۳-۷۴، مطبوعہ)
٭٭٭