صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


آن زبان اور جان
اور  دوسرے افسانے

سلمیٰ اعوان

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

جال۔ اقتباس

سلیمہ عزیز اپنی روزمرہ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے واقعے اور حادثے کو کالی داس کی حکایتوں سے جوڑنے میں بڑی مہارت رکھتی ہے۔ پر دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ کہانی جس کی وہ راوی ہے اس کی مماثلت میں اس نے ناکامی کا منہ دیکھا ہے۔اس کا خیال ہے قدیم انسان جدید انسان سے کچھ بہتر تھا۔

تو کہانی کا آغاز ہوتا ہے اس دن جس کی صبح، دوپہر اور شام اُداسی، ویرانی اور سناٹے کی زد میں آتی ہے۔ سویرے سویرے سوکھے پتے اڑنے لگتے ہیں اور سریسر جھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اس کا اندر گو خوش تھا پر باہر موسم کی زد میں تھا۔ پوری دس جوڑی جوتیوں کے تلے گھسا کر وہ گورنمنٹ گرلز کالج ڈیرہ غازی خان سے تبدیل ہو کر اپنے شہر آئی تھی اور اس نے ڈیوٹی جوائن کی تھی۔

یہ کیسا خوبصورت اتفاق تھا کہ یہاں اسے فاطمہ اکبر ملی۔ سچی بات ہے اس کی آنکھیں اسے دیکھ کر جھلملا اٹھیں۔ یونیورسٹی کے زمانے کا دوستانہ تھا۔ فاطمہ اکبر کوئی ماہ پہلے گوجرانوالہ کالج سے یہاں آئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسری کو تین جھپیاں ڈالیں۔ کلکاریاں مارتی پہلی پرانے تعلقات کی نمائندہ تھی۔ کھلکھلاتی ہوئی دوسری اجنبی ماحول میں شناسائی کی تھی۔ پوری بتیسی کی نمائش کرتی تیسری اس بور دن کے اچھی طرح گذر جانے کی امید کی تھی۔

دونوں سٹاف روم میں ساتھ ساتھ کرسیوں پر بیٹھیں اور فاطمہ اکبر نے اسے سرگوشیوں کے انداز میں کالج کی سیاست پر تفصیلی لیکچر پلایا۔ پرنسپل کس مزاج کی ہیں ؟ کیسے لوگوں کو پسند کرتی ہیں ؟ کون کون اس کی چمچیاں ہیں ؟ کن کن کو دوسروں کی چغلیاں لگا کر اپنے نمبر بنانے کی عادت ہے؟ پروکسی کے کتنے امکانات ہیں وغیرہ وغیرہ؟

سلیمہ عزیز نے یہ سب دلچسپی سے سنا۔ اسٹاف روم بہت کشادہ تھا۔ کھڑکیوں اور دروازوں کی بہتات تھی اس وقت پردے کھینچے ہوئے تھے۔ لمبی کھڑکیوں کے راستے کشادہ گراؤنڈ کے سبزہ زار پر نو خیز لڑکیاں ٹولیوں کی صورت چہل قدمی کرنے یا ہری ہری گھاس پر باتوں میں مگن تھیں۔ ایک طرف بیڈ منٹن کھیلا جا رہا تھا۔

اور یہی وہ وقت تھا جب سلیمہ عزیز نے اُسے دیکھا۔ وہ سامنے والی بلڈنگ سے آ رہی تھی اور یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کس عمر کی ہے؟ چہرہ مہرہ بھی ڈھنگ سے نظر نہیں آتا تھا۔ پر اتنی دوری سے بھی جو چیز اسے دوسروں کی توجہ کھینچ لینے میں مدد دے رہی تھی وہ اس کی چال تھی۔ سلیمہ عزیز کے ذہن میں تشبیہات اور استعاروں کی کوئی کمی نہ تھی۔ ڈھیر لگا پڑا تھا وہاں۔ پر حقیقتاً اس پر کسی ایک کا ٹپہ لگانا صریحاً زیادتی تھی۔ وہ تو سب کا دلکش امتزاج تھی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول