صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
آلاپ
مشتاق عاجز
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
زیب گلو وہ زلف گرہ گیر اب بھی ہے
وحشی اسیر حلقۂ زنجیر اب بھی ہے
کب کا اجڑ چکا ہے شوالہ شباب کا
لیکن وہ بت، کہ آنکھ میں تصویر اب بھی ہے
دل ہے کہ ٹوٹتا ہی چلا جائے ہے مگر
امکاں میں ایک صورت تعمیر اب بھی ہے
آمادۂ سوال نہیں غیرت جنوں
ورنہ دعا کے حرف میں تاثیر اب بھی ہے
دشت وفا میں آج بھی سر ہیں سجود میں
دست جفا میں قبضۂ شمشیر اب بھی ہے
رکھی ہوئی ہے درد کی دولت سنبھال کر
ورثے میں جو ملی تھی وہ جاگیر اب بھی ہے
٭٭٭
بڑے غرور سے جو سر اٹھائے پھرتا ہے
بلا کا بوجھ بدن پر اٹھائے پھرتا ہے
وہ جس کے دیدہ و دل روشنی کے منکر ہیں
وہ مہر و ماہ منوّر اٹھائے پھرتا ہے
ہجوم تشنہ لباں مشتعل نہ ہو جائے
کہ شیخ شیشہ و ساغر اٹھائے پھرتا ہے
ملا رہا ہے جو اک ہاتھ گرم جوشی سے
وہ ایک ہاتھ میں خنجر اٹھائے پھرتا ہے
نہ کوئی قیس گلی میں ، نہ بام پر لیلیٰ
ہجوم کس لیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے
نہ جانے کس کا مقدر ہو زخم دل عاجزؔ
کہ سرخ پھول ستم گر اٹھائے پھرتا ہے
٭٭٭