صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
آگ ہی آگ
اشتیاق احمد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
موت کا پیغام
عمارت
میں سات آدمی موجود تھے ان ساتوں کے چہروں پر موت کا خوف طاری تھا یوں
لگتا تھا جیسے موت کے خوف نے ان کا سارا خون نچوڑ لیا ہو رنگ بالکل سفید
نظر آہے تھے۔ آنکھوں میں ویرانیاں ہی ویرانیاں تھیں۔ بولتے بھی تو یوں
لگتا جیسے دور کسی اندھے کنویں سے ان کی آواز آ رہی ہو۔
عمارت میں کوئی چیز گر پڑتی تو انہیں یوں لگتا جیسے کوئی خنجر ان کی طرف کھینچ مارا گیا ہو وہ بھڑک اٹھتے ان کی چیخیں نکل جاتیں عمارت کا نام تھا خان ولا۔ عمارت کے مالک کا نام خان بدیع خان تھا وہ ان سات میں سے ایک تھا عمارت میں کوئی بچہ یا عورت نہیں تھی یہ عمارت انہوں نے آپس میں جمو ہو کر کھانے پینے دوستی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے چن رکھی تھی۔وہ ہر سال دسمبر کی چھے تاریخ کو یہاں جمع ہوتے تھے پورا ایک ہفتہ یہاں گزارتے تھے خوب کھاتے تھے پیتے تھے گپیں ہانکتے تھے کھیلتے تھے کودتے تھے۔
یہ عمارت صرف ایک عمارت نہیں تھی پوری ایک تفریح گاہ تھی اس کے ارد گرد لمبی چوڑی سبزہ گاہ تھی اس سبزہ گاہ میں دنیا بھر سے لا کر پودے لگائے گئے تھے سیکڑوں قسم کے پھول اپنی بہار دکھاتے تھے۔ موسم کوئی بھی و پھول ضرور کھلا کرتے تھے۔ دسمبر میں بھی یہاں موسم بہار نظر آتا تھا۔
ہر سال ساتوں دوست چھے دسمبر کی شام تک یہاں پہنچ جاتے تھے وہ بہت گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے اپنے گھر بار کی خیریت بال بچوں کی خبریں ایک دوسرے کو سناتے اور سات دن اس طرح گزر جاتے کہ ان کا پتا بھی نہ چلتا کب گزر گئے سات دن بعد جب وہ رخصت ہوتے تو اگلے سال کی چھے تاریخ کو ملنے کا وعدہ کر کے
لیکن اس بار ان کے چہروں پر کوئی خوشی نہیں تھی آج ابھی چھے تاریخ تھی کل سے ان کے پروگرام شروع ہونے والے تھے لیکن ان حالات میں کیا خاک پروگرام ہوتے اس وقت بھی وہ عمارت کے ہال میں بچھی گول میز کے گرد بیٹھے چائے پی رہے تھے عمارت کے تین ملازم غلاموں کی طرح ساکت کھڑے تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب چائے ختم ہو اور وہ برتن اٹھا کر ہال سے باہر نکل جائیں۔
تھوڑی دیر پہلے جب خان بدیع خان نے آ کر عمارت کا تالا اپنے ملازموں کے ذریعے کھلوایا تھا تو سامنے ہی دیوار پر انہیں ایک پوسٹر لگا نظر آیا تھا پوسٹر ہاتھ سے لکھا گیا تھا اور وہ بھی سرخ روشنائی سے وہ اس پوسٹر کی تحریر پڑھ کر چونک اٹھے۔ ان کے قدم رک گئے وہ اندر کی طرف بڑھ نہ سک ملازمیں کو بھی وہ اپنی شہری رہائش گاہ سے ساتھ لائے تھے تالا اپنی آنکھوں کے سامنے کھلوایا تھا اس لیے اس پوسٹر کے بارے میں ملازمین سے تو پوچھ بھی نہیں سکتے تھے۔
ان کے پیچھے ملازم بھی رک گئے وہ بھی ان پڑھ تو نہیں تھے کہ پوسٹر کے الفاظ نہ پڑھ سکیں اس پر بھدے الفاظ میں یہ تحریر نظر آ رہی تھی
اس بار یہاں خون کی ہولی کھیلی جائے گی تم سات میں سے چھے کو قتل کر دیا جائے گا۔ خوب جان لو سات میں سے چھے کو۔
نیچے کسی کا نام نہیں تھا۔ سرخ الفاظ سے خون ٹپکتا محسوس ہو رہا تھا ان کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔
انہوں نے فوراً گھوم کر اپنے ملازمین کی طرف دیکھا۔
یہ۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے ؟
کک۔۔ کون سی بدتمیزی سر ؟ ایک نے کانپ کر کہا۔
یہ پوسٹر
ہم تو آپ کے ساتھ آئے ہیں سر عمارت کی چابی سارا سال آپ کے سیف میں رہتی ہے سر ہمیں کیا معلوم یہ کس کی شرارت ہے۔۔ دوسرا بولا۔
شرارت۔۔ تم اس کو شرارت کہہ رہے ہو۔۔ وہ گرجے۔۔
اور کیا کہیں سر۔۔ یہ شرارت نہیں تو کیا ہے۔۔ آخر کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ میں سے چھے کو قتل کر دے۔۔
اسے پڑی ہے۔۔ تبھی لکھا ہے نا۔۔ ارے بھئی۔ وہ ساتویں کو بطور قاتل پھنسوانا چاہتا ہے۔۔ جب کہ وہ ہے کوئی اور۔
اوہ تینوں ملازموں نے ایک ساتھ کہا اب ان پر بھی سکتہ طاری تھا۔ خیر باقی دوست آ لیں۔۔ پھر مشورہ ہو گا۔۔
عمارت میں کوئی چیز گر پڑتی تو انہیں یوں لگتا جیسے کوئی خنجر ان کی طرف کھینچ مارا گیا ہو وہ بھڑک اٹھتے ان کی چیخیں نکل جاتیں عمارت کا نام تھا خان ولا۔ عمارت کے مالک کا نام خان بدیع خان تھا وہ ان سات میں سے ایک تھا عمارت میں کوئی بچہ یا عورت نہیں تھی یہ عمارت انہوں نے آپس میں جمو ہو کر کھانے پینے دوستی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے چن رکھی تھی۔وہ ہر سال دسمبر کی چھے تاریخ کو یہاں جمع ہوتے تھے پورا ایک ہفتہ یہاں گزارتے تھے خوب کھاتے تھے پیتے تھے گپیں ہانکتے تھے کھیلتے تھے کودتے تھے۔
یہ عمارت صرف ایک عمارت نہیں تھی پوری ایک تفریح گاہ تھی اس کے ارد گرد لمبی چوڑی سبزہ گاہ تھی اس سبزہ گاہ میں دنیا بھر سے لا کر پودے لگائے گئے تھے سیکڑوں قسم کے پھول اپنی بہار دکھاتے تھے۔ موسم کوئی بھی و پھول ضرور کھلا کرتے تھے۔ دسمبر میں بھی یہاں موسم بہار نظر آتا تھا۔
ہر سال ساتوں دوست چھے دسمبر کی شام تک یہاں پہنچ جاتے تھے وہ بہت گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے اپنے گھر بار کی خیریت بال بچوں کی خبریں ایک دوسرے کو سناتے اور سات دن اس طرح گزر جاتے کہ ان کا پتا بھی نہ چلتا کب گزر گئے سات دن بعد جب وہ رخصت ہوتے تو اگلے سال کی چھے تاریخ کو ملنے کا وعدہ کر کے
لیکن اس بار ان کے چہروں پر کوئی خوشی نہیں تھی آج ابھی چھے تاریخ تھی کل سے ان کے پروگرام شروع ہونے والے تھے لیکن ان حالات میں کیا خاک پروگرام ہوتے اس وقت بھی وہ عمارت کے ہال میں بچھی گول میز کے گرد بیٹھے چائے پی رہے تھے عمارت کے تین ملازم غلاموں کی طرح ساکت کھڑے تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب چائے ختم ہو اور وہ برتن اٹھا کر ہال سے باہر نکل جائیں۔
تھوڑی دیر پہلے جب خان بدیع خان نے آ کر عمارت کا تالا اپنے ملازموں کے ذریعے کھلوایا تھا تو سامنے ہی دیوار پر انہیں ایک پوسٹر لگا نظر آیا تھا پوسٹر ہاتھ سے لکھا گیا تھا اور وہ بھی سرخ روشنائی سے وہ اس پوسٹر کی تحریر پڑھ کر چونک اٹھے۔ ان کے قدم رک گئے وہ اندر کی طرف بڑھ نہ سک ملازمیں کو بھی وہ اپنی شہری رہائش گاہ سے ساتھ لائے تھے تالا اپنی آنکھوں کے سامنے کھلوایا تھا اس لیے اس پوسٹر کے بارے میں ملازمین سے تو پوچھ بھی نہیں سکتے تھے۔
ان کے پیچھے ملازم بھی رک گئے وہ بھی ان پڑھ تو نہیں تھے کہ پوسٹر کے الفاظ نہ پڑھ سکیں اس پر بھدے الفاظ میں یہ تحریر نظر آ رہی تھی
اس بار یہاں خون کی ہولی کھیلی جائے گی تم سات میں سے چھے کو قتل کر دیا جائے گا۔ خوب جان لو سات میں سے چھے کو۔
نیچے کسی کا نام نہیں تھا۔ سرخ الفاظ سے خون ٹپکتا محسوس ہو رہا تھا ان کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔
انہوں نے فوراً گھوم کر اپنے ملازمین کی طرف دیکھا۔
یہ۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے ؟
کک۔۔ کون سی بدتمیزی سر ؟ ایک نے کانپ کر کہا۔
یہ پوسٹر
ہم تو آپ کے ساتھ آئے ہیں سر عمارت کی چابی سارا سال آپ کے سیف میں رہتی ہے سر ہمیں کیا معلوم یہ کس کی شرارت ہے۔۔ دوسرا بولا۔
شرارت۔۔ تم اس کو شرارت کہہ رہے ہو۔۔ وہ گرجے۔۔
اور کیا کہیں سر۔۔ یہ شرارت نہیں تو کیا ہے۔۔ آخر کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ میں سے چھے کو قتل کر دے۔۔
اسے پڑی ہے۔۔ تبھی لکھا ہے نا۔۔ ارے بھئی۔ وہ ساتویں کو بطور قاتل پھنسوانا چاہتا ہے۔۔ جب کہ وہ ہے کوئی اور۔
اوہ تینوں ملازموں نے ایک ساتھ کہا اب ان پر بھی سکتہ طاری تھا۔ خیر باقی دوست آ لیں۔۔ پھر مشورہ ہو گا۔۔
٭٭٭