صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
وہی آبلے مرے پاؤں کے
سرور ارمان
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
زمانوں سے درِ امکان پر رکھے ہوئے ہیں
چراغوں کی طرح طوفان پر رکھے ہوئے ہیں
فضاؤں میں مہک جلنے کی بو پھیلی ہوئی ہے
کسی نے پھول آتش دان پر رکھے ہوئے ہیں
ذرا سا بھی گماں تیری شباہت کا تھا جن پر
وہ سب چہرے مری پہچان پر رکھے ہوئے ہیں
خوشی کو ڈھونڈنا ممکن نہیں اس کیفیت میں
کچھ ایسے سانحے مسکان پر رکھے ہوئے ہیں
کوئی تیری پرستش کی نہیں صورت نکلتی
ہزاروں کفر اک ایمان پر رکھے ہوئے ہیں
شکم سیری سے پہلے لمحہ بھر کو سوچ لینا
ہمارے خواب دستر خوان پر رکھے ہوئے ہیں
کسی کے روز و شب بکنے کی قیمت چند لقمے
تو کیا وہ بھی ترے احسان پر رکھے ہوئے ہیں
٭٭٭
یہ بے نیازیِ تزئینِ بام و در تو نہیں
سیاہ بخت ہیں ہم لوگ، بے ہنر تو نہیں
اگرچہ لمحۂ موجود کے حصار میں ہیں
ہم اپنے عہدِ گزشتہ سے بے خبر تو نہیں
فضا مہکنے لگی دفعتاً تو دل نے کہا
چمن بدوش، گلی میں وہ نامہ بر تو نہیں
بہت دنوں سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ
ملے تھے جس پہ کبھی ہم وہ رہگذر تو نہیں
زباں غلام، نگاہیں غلام، فکر غلام
کہ ایک بوجھ ہے شانوں پہ اپنے سر تو نہیں
ہمارا حق ہے جو ہم کو بہ شکلِ بھیک نہ دے
کہ ہم غریب گدایانِ دربدر تو نہیں
ضرورتوں کے جہنم ہیں، مسئلوں کے پہاڑ
گھروں کے نام پہ پھیلے ہوئے یہ گھر تو نہیں
٭٭٭