صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


عبد الحلیم شرر

علی احمد فاطمی

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

                            اقتباس

لا نا عبد الحلیم شرر ہاشمی وعباسی نسل کے تھے اور اُ ن کا یہ سلسلۂ نسب امین الرشید سے ملتا ہے۔  ان کا خاندان دولت عباسیہ کے دورِ حکومت میں سرزمین عرب سے عراق میں آباد ہوا۔ عراق کی آب و ہوا ساز گار نہ تھی۔ اس وجہ سے یہ خاندان اِ دھر اُدھر ہوتا ہوا سلطان محمد تغلق کے عہد (51۔ 1325) میں ہندستان آیا اور دہلی کے دربار سے اس کا تعلق ہو گیا۔ سلطان نے بے حد عزت دی اور ان کا خاندان سلطنت مغلیہ کے آخری دَور تک دہلی میں رہا۔ سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں جب ایرانیوں کا دور دورہ ہونے لگا، تو شرر  کے آبا و اجداد کو یہ بات نہ بھائی۔ ابتدا ہی سے شرر  کے خاندان نے بڑے بڑے علماء پیدا کیے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی چلا آ رہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خاندان وادیِ گنگا کی جا نب مُڑ گیا۔ جونپور اور اعظم گڑھ جیسی جگہوں پر سکونت اختیار کی۔ یہاں کے سلاطین نے اس خاندان کو جا گیریں بھی عطا کیں۔ اس خاندان کے بزرگوں میں ایک بزرگ مولانا معز الدین تھے۔ عِلمیت و مذہبیت سے لبریز صاحب علم اور مقتدائے طریقت تھے۔ ان کے کئی اولادیں ہوئیں جن میں بڑے لڑکے کا نام نظام الدین تھا، یہ شرر  کے پردادا تھے۔ مولوی نظام الدین حصولِ علم میں اپنے اجداد سے آگے نکل گئے، وطن کو خیرباد کیا اور دہلی کی راہ لی۔ ان دنوں دہلی میں حضرت شاہ ولی اللہ کی بڑی دھوم تھی۔ مولوی نظام الدین انھیں کے حلقۂ درس میں شامل ہو گئے۔ ایسی تعلیم حاصل کی کہ مثال قائم کر دی۔ اگرچہ گھر سے بہت کم تعلق رکھتے تھے لیکن والد کی وفات پر واپس وطن آئے۔ یہاں جائداد سے متعلق بھائیوں میں جھگڑا دیکھا  تو سب چھوڑ کر مغرب کی طرف نکل پڑے اور لکھنؤ میں وارد ہوئے۔ علمائے فرنگی محل سے تعلق پیدا ہوا۔ اس زمانے میں قصبۂ کرسی میں مولانا شاہ نجابت اللہ موجود تھے۔ فرنگی محل کے علماء کا ان سے تعلق تھا۔ مولوی نظام الدین کی خدمت میں گئے۔ شاہ صاحب نے ان کا بہت خیال کیا۔ اس وقت قصبہ کرسی کے خطیب اپنی شرافت کے سلسلے میں بہت مشہور تھے۔ سارا قصبہ ان کی بہت عزت کرتا تھا۔ شاہ صاحب نے دختر نیک اختر سے مولوی نظام الدین کا عقد کرا دیا اور وہیں بس گئے۔ شاہ صاحب کے انتقال کے بعد جائداد کے کچھ جھگڑے کھڑے ہوئے اور مولوی نظام الدین صاحب ان جھگڑوں سے بچ کر لکھنؤ چلے آئے۔ لکھنؤ میں مسڑمارٹن کی تعلیم کا بار مولوی نظام الدین کے کاندھوں پر آ گیا۔ مسٹرمارٹن ان دنوں لکھنؤ میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان کو اپنا استاد بنا لیا اور بے حد احترام کرنے لگے۔ مارٹن کے سلوک سے مولانا مع اہل و عیال کے لکھنؤ آ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی اور دو بیٹے محمد اور احمد تھے، یہیں پر محمد کی ایک اولاد ہوئی جس کا نام عبد ا لرحیم رکھا گیا۔ بقول شرر  :

"یہیں مارکین کی کوٹھی میں مولوی نظام الدین کے بڑے فرزند مولوی محمد کے ایک فرزند ہوا۔ اس فرزند کا نام عبد الرحیم رکھا گیا۔ مگر ماں نے اپنے مذاق کے مطابق تفضّل حسین کے نام سے یاد کیا۔ چنانچہ اسی نام سے شہرت ہوئی۔ اور یہی میرے والد محترم تھے۔"

مارٹن کے انتقال کے بعد سلسلۂ ملازمت ٹوٹا اور یہ چھوٹا سا خاندان لکھنؤ سے منتقل ہو کر پھر واپس کرسی آ گیا۔ اسی درمیان کرسی میں زبردست ہیضہ کی بیماری پھیلی کہ موت کے بادل منڈلانے لگے۔ صدہا آدمی موت کی وادی میں پہنچ گئے۔ اس تباہی میں مولوی نظام الدین کا خاندان بھی تباہ ہو گیا۔ مولوی نظام الدین کا انتقال ہوا۔ بڑے بیٹے مولوی محمد کا انتقال ہوا اور دوسرے اعزّا بھی یکے بعد دیگرے رخصت ہونے لگے۔ اس وقت تک مولوی محمد کے تین بچّے ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان کے چھوٹے بھائی مولوی احمد نے اپنی بھاوج اور بچّوں کو سمیٹ کر لکھنؤ آ کر پناہ لی۔ مولوی احمد نے تو اپنی بھابی کے یہاں کاکوری میں پناہ لی اور مولوی محمد کی بیوی اور بچّے رشتے کے ایک ماموں محمد رضا کے یہاں پناہ گزیں ہوئے۔ تین بچّو ں میں جلد ہی دو بچّے داغِ مفارقت دے گئے۔ صرف ایک بچّہ رہ گیا جو اپنے خاندان کی حیثیت سے اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لے رہا تھا۔ یہ بچّہ بڑا ہوتے ہی اپنے چچا کے ساتھ تجارت میں لگ گیا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول