صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بے یقین بستیاں

علی اکبر ناطق

جمع و ترتیب: اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں  دو حصوں میں

حصہ اول          ورڈ فائل                                                                           ٹیکسٹ فائل

حصہ دوم          ورڈ فائل                                                                           ٹیکسٹ فائل

بجھی چنگاریوں میں ایک چمک

 تصویر اس کے بیڈ کے بالکل سامنے اس طرح آویزاں ہے کہ سونے سے پہلے اور صبح آنکھ کھلتے ہی نظر اس پر پڑتی ہے۔ بھورے رنگ کے فریم میں قید بہت سے ہاتھ ہیں ، اٹھے ہوئے ہاتھ جن کی پھیلی ہتھیلیوں پر آگ روشن ہے۔ کھلی آنکھوں سے آگ جلاتی کاٹتی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو کر دھند لا رہی ہوتی ہیں تو آگ ننھے ننھے چراغوں میں بدل جاتی ہے اور ہتھیلیوں پر رقص شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن صبح آنکھ کھلتے ہی جب اس کی نظر پڑتی ہے تو شعلے جلانے لگتے ہیں۔
وہ ان ہاتھوں کے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے کہ پھیلے ہاتھ کی ہتھیلیوں پر روشن آگ کبھی اسے جلاتی ہے کبھی گدگداتی ہے اور چہرے تو کبھی اس کی گرفت میں نہیں آئے۔ یہ چہرے بھی عجیب ہوتے ہیں ، پڑھنے کے لیے جھکو تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہو تو جھک جھک پڑتے ہیں۔
تصویریں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ جس لمحہ کو چاہیں قید کر لیں ، جس لذت کو چاہیں دائمی بنا لیں ، دکھ کے لمحے کو بھی۔۔۔  لیکن دکھ کا لمحہ تو یوں بھی دائمی ہی ہوتا ہے کہ داغ مٹ بھی جائے تو کسک نہیں جاتی۔
اور یہ قیدی ہاتھ، جن کی ہتھیلیوں پر چراغ جل رہے ہیں ، اس کسک ہی کی تو یاد ہیں اور وہ چہرہ جانے اب کہاں ہو گا۔ اس کی بند ہوتی بوجھل آنکھوں میں چراغ جھلملاتے ہیں ، منظر دھیرے دھیرے اپنے بازو وا کرتا ہے اور اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے۔
وہ قدم قدم آگے بڑھتی ہے اور اپنی غلافی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتی ہے۔
لمحہ منجمد ہو جاتا ہے۔
چراغوں کی لو میں وہ بپھرے دریا اور کھرتے کناروں کو دیکھتا ہے۔
زندگی بھی عجیب چیز ہے، سانس کے اس طرف ایک منظر اور دوسری طرف دوسرا منظر۔
وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’انتظار ایک عجیب ذائقہ ہے جس کی لذت برسوں ختم نہیں ہوتی۔‘‘
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہے۔۔۔  ’’اور یہ ازل کا لمحہ ہے، شاید ابد بھی۔‘‘
خاموشی رینگ رینگ کر ان کے درمیان جمع ہو جاتی ہے۔ ایک دھند ہے، وہ اس دھند میں سائے بنے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’دریا جوش میں ہے اور انجام قریب آ رہا ہے۔‘‘
وہ مسکراتی ہے۔۔۔  ’’انجام کی پروا کسے ہے؟‘‘
دوسرے کنارے پر دو گھورتی غصہ بھری آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں ، ایک اطمینان۔۔۔  بس اب کھیل ختم ہونے والا ہے۔
اس کنارے پر وہ ہنستی ہے۔۔۔  ’’کھیل تو اب شرو ع ہو گا، ازل اور ابد ایک دوسرے سے ہم کنار ہونے والے ہیں۔‘‘
غنودگی کے اس لمحہ میں وہ آنکھیں پھیلا کر تصویر کو دیکھتا ہے۔ اٹھے ہاتھوں کی پھیلی ہتھیلیوں پر جلتے چراغوں کی لَو لمحہ بھر کے لیے تیز ہو تی ہے، پھر دھیرے دھیرے مدھم ہوتی چلی جاتی ہے، آنکھیں بند ہوتے ہوتے، وہ اس چہرے کا تصور کرتا ہے، جواب ان ہاتھوں سے دور کہیں چھپا بیٹھا ہے۔
وہ رقص کرتی آتی ہے۔
وہ ونجلی نیچے رکھ دیتا ہے۔
وہ پوچھتی ہے۔۔۔  ’’ونجلی بجانی کیوں بند کر دی؟‘‘
وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’اس کی تان تو تم ہو۔‘‘
وہ ہنستی ہے۔۔۔  ’’تمہاری باتوں میں ایک عجیب مزہ ہے۔‘‘
’’ہاں ، تعلق ایک مزہ ہی ہے، ایک عجیب لذت، جس کی مٹھاس صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
اور یہ اٹھے ہاتھ اور پھیلی ہتھیلیاں صدیوں سے منتظر ہیں
وہ لمحہ
جانے وہ لمحہ جدائی کا ہے یا وصال کا
جدائی کیا ہے؟ وصال کیا ہے؟
وہ سر ہلاتی ہے۔۔۔  ’’جدائی اور وصال ایک ہی لمحہ کے دو رُخ ہیں۔‘‘
وہ کچھ نہیں بولتا۔
وہ کہتی ہے۔۔۔  ’’ہم ایک لمحے میں جدا ہوتے ہیں اور اگلے لمحے میں مل جاتے ہیں۔‘‘
’’پھر جدا ہونے کے لیے۔‘‘
’’جدائی، ایک خوشبو ہے اور جب یہ خوشبو پھیلتی ہے تو اٹھے ہاتھوں کی پھیلی ہتھیلیوں پر چراغ جل اٹھتے ہیں۔‘‘
’’یہ عجیب تصویر ہے، مجھے تو کبھی کبھی اس سے آوازیں آتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘ پھر اپنے آپ سے کہتا ہے۔۔۔  ’’وہ ابھی تک مجھے نہیں بھولی اور یہ تصویر بھی تو اسی نے بنائی تھی۔‘‘
اور دور بہت دور گھر کی آخری سیڑھی پر بیٹھی وہ سوچ رہی ہے۔۔۔  ’’وہ لوٹ کر نہیں آیا، یہ بہار بھی یوں ہی گزر گئی۔‘‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  دو حصوں میں

حصہ اول          ورڈ فائل                                                                           ٹیکسٹ فائل

حصہ دوم          ورڈ فائل                                                                           ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول