صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
پانچ پوپ کہانیاں
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
آنر کلنگ۔ اقتباس
مولوی امیر الدین کا پارہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ساتویں آسمان پر تھا۔ گرجتے برستے مولوی کا ہوائی فائر کرنے میں تو کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ حالانکہ سیّدانی بھی بڑی دل گردے والی عورت تھی۔ زبان کی کافی تیز۔ کرنے پر آتی تو ذرا لحاظ نہ کرتی مگر جب مولوی امیر الدین فائر کھولتے تو سیّدانی سیز فائر کر دیتی۔ زندگی کی گاڑی بس یونہی چھک چھک کرتی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ کسی اسٹیشن پر ذرا زیادہ دیر رک جاتی اور جب تک سبز جھنڈی ہلتی نظر نہ آتی زمین و آسمان سانس روکے رکھتے۔
مگر آج تو حد ہی ہو گئی تھی مولوی امیر الدین کو رہ رہ کر غصے کے دورے پڑ رہے تھے۔ سب بچے اپنے اپنے کمروں میں دبکے بیٹھے تھے بس تیروں کی بوچھاڑ سہنے کے لیے سیّدانی میدان میں ڈٹی ہوئی تھی بات کچھ بھی نہ تھی بڑی بیٹی شرمین نے کالج میں داخلے کی ضد کر ڈالی تھی مولوی امیر الدین کو یوں لگا جیسے اس نے باپ دادا کی عزت پر کالک پوت دی ہو۔ بیٹی بھی دھن کی پکی تھی۔ ایک ہی رٹ تھی کہ ’’آخر وہ کب تک گھر میں بیکار بیٹھی رہے گی۔ نہ آگے پڑھنے کی آزادی۔۔۔ نہ ہی کوئی ملازمت کرنے کا ماحول۔۔۔ ایسے میں کوئی کرے تو کیا کرے؟ انگلینڈ میں رہتے ہوئے بھی اس قدر دقیانوسی ماحول۔۔۔ ؟‘‘ شرمین اکثر بڑبڑاتی۔۔۔۔ ! مولوی امیر الدین بیوی اور بیٹیوں کو تو تہہ خانے میں چھپا کر رکھتا مگر محلے بھر کی نئی نئی جوان ہوتی ہوئی شوخ و شنگ لڑکیوں کو کن اکھیوں سے دیکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا تھا۔ مولوی کے اسی دوغلے پن سے اس کی بیٹی شرمین کو چڑ تھی کہ ’’خود میاں فضیحت اور دوسروں کو نصیحت۔۔۔۔ !‘‘ مولوی کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ شرمین اور ریان جڑواں بہن بھائی تھے اس کے بعد نرمہ اور کامران۔۔۔۔ بچے ماں باپ کے درمیان ہونے والی سرحدی جھڑپوں میں ملوث نہ ہوتے وگرنہ ماں کی طرفداری کرنے کی پاداش میں ان کی شامت آ جاتی۔
سیدانی محلے بھر کی بچیوں کو قرآن پاک پڑھا کر ثوابِ دارین حاصل کرتیں۔ بسم اللہ۔ آمین۔۔۔ عقیقے۔۔۔ میلاد۔۔۔ گیارہویں۔۔۔ نذر نیاز۔۔۔۔ نذرانے بس ایک شور سا مچا رہتا۔ چند ایک عورتیں ہمیشہ سیّدانی کے پاس دعا کروانے کی غرض سے موجود رہتیں۔ ہر جمعرات کو خاص دعا کا اہتمام کیا جاتا۔ درودسلام کی محفل منعقد ہوتی۔ جو مولوی امیر الدین کے گھر لوٹ آنے سے پہلے ہی ختم کر دی جاتی۔
اگر کبھی عورتوں کو اٹھنے میں دیر ہو جاتی اور مولوی امیر الدین گھر لوٹ آتا تو اس کے قدموں کی چاپ سن کر سبھی عورتیں دوپٹے، چادریں دوبارہ سے درست کرنے لگ جاتیں۔ سیّدانی ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش رہنے کو کہتی کہ ’’مولوی امیر الدین راہداری سے گزر جائیں تو وہ پھر نکلیں۔ ‘‘ گویا ایک ہنستا بستا گھر نہ ہوا بیگار کیمپ ہو گیا۔ جہاں ہر وقت کسی انہونی کا دھڑکا لگا رہتا۔
مولوی کی بڑی بیٹی شرمین زندگی سے بھرپور لڑکی تھی۔ جی بھر کر جینا چاہتی تھی۔ ہنسنا۔ کھیلنا۔ کودنا چاہتی تھی مگر گھر کا ماحول یوں تھا جیسے شہر خموشاں۔ ایسے میں تنہائی سے گھبرا کر وہ کسی نہ کسی سہیلی کو گھر پر بلاتی کیونکہ اسے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔
٭٭٭